قسط: 2
سارا دن پڑھائی اور پیریڈز میں اسے سر کھوجانے کا ٹائم بھی نہ ملا اور نہ ہی اس کے بعد اس کا پروفیسر شاہ سے آمنہ سامنہ ہوا
وہ گھر آنے کے بعد اپنی ماں کی گود میں سر رکھیں لیٹی ہوئی تھی
کیسا گزرا آج کا دن میری بیٹی تو بہت تھک گئی لگتا ہے
جی مما آج بہت زیادہ کام تھا سر کھجانے تک کا ٹائم نہیں ملا
ماما آج بابا ہوتے تو کتنے خوش ہوتے نا کہ ان کی بیٹی کتنی بڑی ہو گئی ہے کہ یونیورسٹی جانے لگئ ہے
جی میری بیٹی آپ صحیح کہہ رہی ہیں اگر آپ کے بابا اس دنیا میں ہوتے تو بہت خوش ہوتے
مما آپ کو پتہ ہے آج کیا ہوا آج جب میں بس میں گھر سے نکلی تو
مما جب ہم مین روڈ کراس کرنے لگے تو مین روڈ کے درمیان میں ایک بلی کا بچہ بیٹھا ہوا تھا جو شاید گاڑیوں کی آواز کی وجہ سے ڈر کر درمیان میں ہی بیٹھ گیا تھا
میں نے بس کی کھڑکی سے ایک گاڑی کو اس کی طرف آتے دیکھ زور زور سے چیخیں مارنا شروع کر دی تو میری ان چیخوں کی وجہ سے ڈرائیور انکل کا دیھان میری طرف ہوا تو ہماری بس ایک ٹھیلے سے جا کے ٹکرا گئ
زیادہ مسئلہ ہو سکتا تھا اگر انکل ٹائم پر بریک نہ لگاتے
اپ کو پتہ ہے وہ ٹھیلے والے
انکل ہم سے لڑنا شروع ہو گیا تھا
جس کی وجہ سے میں نے رونا شروع کر دیا
آپ کو پتہ ہے میری ہیلپ کس نے کی وہ جو ہمارے انگلش کے پرفیسر ہیں وہ پاس سے گزر رہے تھے انہوں نے ہماری ہیلپ کی
ویسے ان کی پرسنلٹی بڑی کمال کی ہے ٹیچر تو وہ لگتے ہی نہیں کوئ آرمی مین لگتے ہے
مما
بابا بھی انگلش کی پرفیسر تھے نا
مما آپ کی اور بابا کی ملاقات کیسے ہوئی
میں جب بھی آپ سے پوچھتی ہوں تو آپ ٹال دیتی ہے
اگے سے کوئی جواب کیوں نہیں دیتی
آپ کے مامابابا کا تو پتا ہے کہ وہ آپ کی شادی سے پہلے فوت ہو گئے
پر دادا دادی وہ بھی سال میں بس ایک بار ہی کیوں آتے ہے
ہم ان کے ساتھ کیوں نہیں رہتے
وہ اس کے سوال سن کے حیران نہیں ہوئ تھی ہر ہفتے میں ایک دفعہ یہ سوال اس سے دہرائے جاتا
اور ہر دفعہ وہ اسے خاموش کروا دیا کرتی تھی
وہ آپنی بیٹی کی طرف دیکھتی رہی اور پھر اپنے ہاتھوں کی لکیروں کی طرف دیکھا
بیٹا مجھے لگتا ہے کھانا بن گیا ہو گا میں کھانے کا پتہ کر کے آتی ہو
تب تک تم فریش ہو کے نیچے آجاؤ اتنا کہ کر وہ نیچے کچن کی طرف چلی گئ








ماضی
گھر والوں سے بات کی ہمارے رشتے کے بارے میں
ہاں میں نے بات کی ہے اس بارے میں پر وہ مان نہیں رہے
میں نے صرف تم سے محبت ہی نہیں کی تم سے نکاح بھی کیا ہے اور میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑ گا تم بے فکر رہو
اگر تمہارے گھر والے نہ مانے تو کیا تم مجھے طلاق دے دو گے
میں نے کہا نا
سندس تم کیوں ڈرتی ہو تم تو میری زندگی ہو
اس مہینے کے آخر میں
میں نے گاؤں جانا ہے اس بار میں آخر کوشش کرو گا اگر مان گئے تو ٹھیک ہے نہیں تو تمہیں اپنے ساتھ اپنے شہر والے گھر لے چلو گا اور وہاں ہم اپنی زندگی کی نئ اور خوشگوار شروعات کرے گے
اس ماہ کے آخر میں تمہاری پڑھائی بھی مکمل ہو جائے گی
پھر تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنا پاس لے آؤ گا
میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا
تم فکر نہ کرو تم پاپا نہ مانے تو تمہیں میں ہاسٹل سے اپنے گھر لے چلوں گا
پہلے اس کی طرف دیکھتی رہی اسے اپنی محبت پر آج ناز ہو رہا تھا جس نے محبت کی ہی نہیں نبھائی بھی تھی









چھوٹا سا کالے رنگ کاکمرا جس کی دیواریں مکمل کالے رنگ سے ڈھکی ہوئی تھی
اس کمرے میں بیٹھنے کے لیے ایک شیئر اور سامنے آیک ٹیبل تھااور کچھ بھی نہیں
وہ اپنی رولنگ شیئر پر بیٹھا سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگاتے ہوئے کچھ سوچ رہا تھا جب اس کمرے کا دروازے ناک ہوا
کم ان
اتنا کہنے کے بعد دروازہ آہستہ سے اندر کی طرف کھولا تھا
ایک شخص اندر آیا جس نے بلیک کلر کی ہوڈی پہن رکھی تھی اور اس کا چہرا بھی ہڈ سے کرو تھا
بیٹھے ہوئے شخص نے ایسے ایک نظر دیکھا
کیا اس عورت کا کچھ پتہ چلا
بیٹھے ہوئے شخص نے پوچھا
پتہ چل گیا ہے پر وہ ابھی اس ملک میں نہیں ہے
پر اگلے مہینے وہ پاکستان واپس آ رہی ہے
اس کی اتنی بات پر اس شخص نے سر ہلایا
یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ تم اب جا سکتے ہے
سامنے کھڑے شخص نے اس کے اشارے کو سمجھتے کمرے سے باہر کی راہ لی
اور کمرے سے نکلتے کمرے کا دروازہ بند کرتا نکلتا چلا گیا
اور اندھیری رات میں اندھیرے کا ایک حصہ بن گیا
جب کے پیچھے کچھ سوچتے ہوئے وہ شخص بھی اس کمرے سے باہر نکلتا اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا









آج اس کا یونیورسٹی میں دوسرا دن تھا
وہ آتی سیدھا اپنے ڈیکس پر بیٹھ گئی جس پہ کل بیٹھی تھی کل تمام پیریڈ کے دوران اس کی ماہین سے کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی
ماہین اسے بہت پیاری لگی بالکل اپنے جیسی لگی
اسے کلاس میں بیٹھے ابھی کچھ ہی ٹائم گزرا تھا
ماہین بھی اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی
قندیل اسے دیکھ کے کافی خوش ہوئی
ابھی ان دونوں کو باتیں کرتے کچھ ہی ٹائم گزرا تھا کہ پروفیسر کلاس میں داخل ہوئے
تمام گلاس سر کو دیکھتے ہی بالکل سیدھی ہو کے بیٹھ گئے
السلام علیکم سر
یہ بھی پروفیسر شاہ نے ہی ان کو گڈ مارننگ کی جگہ سلام کرنے کو کہا تھا
پروفیسر شاہ نے پوری کلاس کو ایک نظر دیکھا اور قندیل کو دیکھتے ہی اس کی نظر پھر سے آج آس پر ٹھہر گئ
کیونکہ اج وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی
پرپل کلر کی فراق پہنے ساتھ میں ہم رنگ حجاب لیے پر آج اس نے کالی کی جگہ سفید چادر اوڑھ رکھی تھی
قندیل کو دل بھر کر دیکھنے کے بعد وہ کلاس کی طرف متوجہ ہوا
سو سٹوڈنٹ
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں پڑھائی کہ معاملے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا
میں پورے ہفتے میں آپ کو جو پڑھاؤ گا ہفتے کے آخری دن اسسائنمنٹ کی شکل میں آپ لوگوں سے ٹیسٹ لیا کروں گا
اور اس میں کوئی کمپرومائز نہیں کیا جائے گا اور اگر اس میں کچھ غلطی ہوئی تو سزا ملے گی
اتنا کہتے ہی اس نے لیکچر شروع کر دیا
پڑھانے کے بعد ایک نظر کلاس میں دوڑاتے اس نے سوال کیا
کیا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئی تو پوچھ لیں
نو سر
تمام سٹوڈنٹس نے ہم آواز کہا
اگر پھر بھی کیس کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہ پوچھ سکتا ہے
کیونکہ میں اپنے کام کے معاملے میں کوئی غلطی برداشت نہیں کرتا
اتنا کہنے کے بعد اس نے قندیل کی طرف دیکھا جو ابھی بھی بک پر نظریں گاڑے بیٹی تھی
مس قندیل کیا اپ کو سمجھ نہیں آئی تھی
نو سر ایسی بات نہیں ہے
پھر آپ نے میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا
سر کون سا سوال سر
ابھی تو میں نے پوچھا کہ کسی کو لیسن کو سمجھنے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی
نو سر کوئی پریشانی نہیں
اتنا کہنے کے بعد وہ دوبارہ بیٹھ گئی
اور وہ اپنا لیپ ٹاپ اٹھاتا دوسری کلاس کا پیریڈ لینے چلا گیا
کیا ہوا ایسا منہ کیوں بنا رکھا ہے
ماہی نےاس کی طرف دیکھا تو اس کی اڑی ہوئ رنگت دیکھ اس سے پوچھا
مجھے بس ٹیسٹ کا سوچ کر ٹینشن ہو رہی ہے
کیو تم کو کچھ نہیں آتا
نہیں ایسی بات نہیں ہے
اس یونی میں اڈجیسٹ ہونے میں مجھے تھوڑا ٹائم لگ گیا جس کی وجہ سے میں سہی سے پڑھ نہیں سکی پر میں کل تک کر لو گی
بس مجھے ڈر لگ رہا ہے
کسی چیز سے ڈر لگ رہا ہے سر سے یا سر کے دیے ٹیسٹ سے
دونوں س
اس کی بات سن کر ماہی کو ہسی آئی
اس کو ہستا دیکھ قندیل پھر سے بولی
ایسی بات نہیں ہے میں نے پچھلے سکول کالجز میں ٹاپ کیا ہے
پھر یہ تو تمہارے لیے چٹکیوں کا کام ہوگا
سر تو پڑھاتے بھی بہت اچھا ہے
تم کو پتہ ہے میرے بابا بھی انگلش کے پروفیسر تھے اور وہ اسی ہی یونی میں پڑھاتے تھے
سچ میں تمہارا بابا پروفیسر ہے
ہاں میرے بابا پروفیسر تھے
تھے مطلب کیا وہ اب نہیں ہے
میرے بابا شہید ہوئے تھے
کیسے شہید ہوئے تھے ماہی نے اس سے پوچھا
کبھی مما نے بتایا نہیں بس اتنا کہتی ہے کے وہ شہید ہوئے تھے
شاید وہ ایک دہشت گرد حملے میں شہید ہوے تھے
وہ اس کو بتاتے ہوئے رونے لگی
اچھا اچھا ائ ایم سوری تم رونا مت شروع کرو
نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے تم سوری نہ کہو
بات کرتے ہوئے ان کے اگلے پیریڈ کا ٹائم ہو گیا تو وہ دوبادہ اپنے کام میں مصروف ہو گئ








آج اسے یونی آتے ہوئے پورا ہفتہ ہو گیا تھا
اس پورے ہفتے میں اسے پروفیسر شاہ کچھ عجیب سے لگے ایسے ایسا لگتا کہ سر اس کی طرف دیکھ رہے ہے پر جب وہ سر کی طرف دیکھتی تو وہ اپنے کام میں مصروف ہوتے یہ بات قندیل کو بہت عجیب لگتی تھی