قسط: 3
وہ جب یونیورسٹی سے گھر واپس آئی تو اس کے تایا ابو اور اس کا بیٹا پہلے سے ہی موجود تھے
وہ ان کو دیکھ کر کچھ زیادہ خوش نہیں ہوئی تھی
اسے پتہ نہیں کیوں اپنا تایا ابو لالچی اور اس کا بیٹا عجیب لگتا تھا
اسے ہمیشہ ایسا لگتا تھا جیسے اس کے تائے کا بیٹا سفیان اسے ہوس بھری نظروں سے دیکھتا ہے
وہ ان کو ایک نظر دیکھ سلام کرتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلتی بنی
اس کی ماں کو بھی ان کا ایسے بن بلائے گھر آنا اور ایک ہفتے میں دو دو چکر لگانا کچھ خاص پسند نہیں تھا
پر وہ انہیں روک بھی نہیں سکتی تھی یہ ان کے چھوٹے بھائی کا گھر تھا
مزید ایک گھنٹہ ان کے گھر رکنے کے بعد وہ اپنے کام کی طرف روانہ ہو گئے
لیکن جب تک وہ اس گھر میں موجود تھے قندیل نے دوبارہ پلٹ کر نیچے کی طرف نہ دیکھا
اسے عجیب وحشت ہوتی تھی سفیان کی نظروں سے
اس کا دل کرتا کہ وہ اس کی نظروں کے سامنے سے کہیں غائب ہو جائے
اس کو وہ مقصد بھی معلوم تھا جس کی وجہ سے وہ بار بار ان کے گھر چکر لگاتے تھے
وجہ ان کا بیٹا سفیان تھا جس کے لیے وہ قندیل کا رشتہ چاہتے تھے
وہ قندیل سے 15 سال بڑا اور کافی آیاش قسم کا انسان تھا
لیکن اس کی ماں ان کو ہر دفع نہ کر دیتی
وہ گھر سے چلے گئے تو وہ اپنے کمرے سے نیچے کچن کی طرف ائی
مما اج پھر یہ کیوں ائے ہیں
وجہ تم کو معلوم ہے بیٹا
پوچھنے کی کیا ضرورت ہے
مما اپ ایک ہی بار میں انہیں چلتا کیوں نہیں کرتی یہ بار بار کیوں ہمارے گھر کے چکر لگاتے ہیں
آپ بتا دے نا کہ میں ان کے بیٹے سے شادی نہیں کرنا چاہتی
یہ کوئی زور زبردستی نہیں کر سکتے
بیٹا ایسے بات نہیں کرتے وہ تمہارے تایا ابو ہیں
اس کی ماں نے اس کے بدتمیزانہ انداز پر اسے سمجھانا چاہا
سوری مام پر آپ انہیں سمجھا دیں نہیں تو کسی دن میں ان سے بات کروں گی
بابا کے جانے کے بعد دادا ابو نے ہمیں وہ توجہ دی ہی نہیں جو ہم ڈیزرو کرتے ہیں تو پھر یہ بار بار کیوں آتے ہیں
ماما مجھے سفیان کی نظروں سے عجیب سی وحشت ہوتی ہے اپ انہیں روک دے کے وہ ہمارے گھر نہ آیا کریں
یہ صحیح نہیں ہے
اتنا کہنے کے بعد وہ رکی نہیں بلکہ دوبارہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی
جب کہ پیچھے اپنی ماں کو وہ ہزاروں سوچوں میں چھوڑ گئ
سید کرم شاہ کی دو ہی اولادیں تھی
ایک بیٹا اور ایک بیٹی
بیٹا سید سلطان شاہ
جبکہ بیٹی کا نام فرزانہ تھا
کرم شاہ کے بعد
سلطان شاہ کی بھی دو ہی اولادیں تھی
اور دونوں ہی بیٹے بڑا بیٹا سید صغیر شاہ
جب کہ چھوٹا بیٹا کبیر شاہ تھا
جبکہ فرزانہ کی دو بیٹیاں ہی تھی
ایک بیٹی کا نام چندہ جب کہ دوسر بیٹی کا نام ستارہ تھا
صغیر کا رشتہ چندہ سے اور کبیر کا رشتہ ستارہ سے بچپن میں جوڑ دیا گیا تھا
صغیر کبیر سے پانچ سال بڑا تھا
جبکہ چندہ اور ستارہ جڑوا بہنیں تھی
جڑوا ہونے کے باوجود ان کے نیچر میں زمین اسمان کا فرق تھا
چندہ ایک سلجھی ہوئی لڑکی تھی جبکہ ستارہ اس کے اس سے بالکل مختلف شوخ طبیعت نتمیز قسم کی لڑکی تھی
وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتی تھی
صغیر جب 25 سال کا ہوا تو اس کی شادی چندہ سے کر دی گئی
جبکہ چندہ کی عمر 19 سال تھی
کبیر ابھی اپنی پڑھائ مکمل کر رہا تھا
ستارہ کبھی زور زبردستی میں کبیر سے شادی نہ کرتی اگر اسے کبیر کی دولت نہ چاہیے ہوتی
کبیر اس کو ویسے ہی بہت پسند تھا وہ انسان خوبصورتی کا شہکار تھا
صغیر شاہ نے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد گاؤں میں ہی شادی کر کے ادھر سے ہی اپنا بزنس شروع کر دیا
جبکہ کبیر کو اگے مزید پڑھنے کا شوق تھا اسی لیے سلطان شاہ نے اسے شہر میں ہی ایک بنگلوں لے دیا تھا جہاں رہ کے وہ اپنی پڑھائی مکمل کر رہا تھا
وہ صغیر شاہ سے شروع سے ہی کہتے تھے کہ اسے اتنا نہیں پڑھانا چاہیے جتنا پڑھ لیا ہے اتنا بہت ہے اگے اپنا کام شروع کرے اور گاؤں واپس آ جائے
لیکن صغیر ہمیشہ کبیر کی طرف داری کرتا اور سلطان شاہ کو سمجھاتا کہ اسے مزید پڑھنے دیا جائے
اس بات سے ہمیشہ سلطان شاہ متفق نہیں ہوتے تھے
جس کا نتیجہ انہیں اج کبیر کی بغاوت کی شکل میں ملا تھا
جو آج ان کے سامنے سینہ تان کھڑا ان کو بتا رہا تھا کہ اس نے شادی کر لی ہے اور وہ بھی آج نہیں پورے تین مہینے پہلے جب وہ آخری دفعہ گاؤں سے ہو کر گیا تھا
سلطان شاہ کو تو مانو جیسے سانپ ہی سونگ گیا ہو
جبکہ صغیر کونے میں خاموش کھڑا تھا وہ کہہ بھی کیا سکتا تھا اس معاملے میں
جبکہ سیڑھیوں کے ساتھ والے کمرے میں کھڑی ستارہ یہ سب سنتے ہوئے اندر ہی اندر پاگل ہونے کو تھی
میں نے کہ دیا نہ کہ مین سندس سے شادی کروں گا تو میں اس سے ہی شادی کروں گا
نکاح میں پہلے کر چکا ہوں اگر اس دفعہ آپ نہ مانیں تو میں یہ گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ کے چلا جاؤں گا
اتنا کہنے کے بعد اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا جو منہ پہ دوپٹہ رکھے اپنے انسوں کا گلا گھونٹ رہی تھی
تم کو معلوم ہے نا کہ وہ لڑکی ہمارے معیار کی نہیں ہے ہم کو نہ اس کا کچھ اگلا پتہ ہے نہ پچھلا تو ہم اس سے تمہاری شادی کیسے کریں
سلطان شاہ غصے سے دہاڑا تھا
بابا مجھے اس کے اگلے پچھلے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مجھے اس سے محبت ہے میں نکاح کر چکا ہوں اور اگر آپ نہیں مانتے تو میں جا رہا ہوں
اتنا کہنے کے بعد اس نے اپنا سفری بیگ اٹھایا اور باہر کی طرف چلنا شروع کیا اسے امید تھی کہ پیچھے سے اس کا باپ اسے پکارے گا اور وہ مان جائے گا
اور اسے روک لے گا مگر جب وہ دروازے کی دہلیز تک پہنچ گیا
تو اسے پیچھے سے کوئی آواز نہ ائی اس نے ایک دفعہ پلٹ کر پیچھے دیکھا اس کا باپ اس کی طرف سے منہ موڑے کھڑا تھا
صغیر میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کے پیچھے جاتا
کیونکہ اگر اس کے پیچھے جاتا تو وہ بھی اس گھر سے نکال دیا جاتا اور وہ یوں کروڑوں بلکہ اربوں کی جائیداد چھوڑ کے جانا نہیں چاہتا تھا
اس نے ایک دفعہ پلٹ کر پیچھے دیکھا اور دروازے سے باہر نکل گیا کبھی نہ واپس انے کے لیے
قندیل اور اس کی مما ڈنر کر رہے تھے جب قندیل کو خیال ایا کہ اس نے کل اسائنمنٹ جمع کروانی تھی
وہ تو سکول سے آتے ہی اپنا کام شروع کر دیتی اگر گھر میں تایا ابو اور اس کے بیٹے کو دیکھ کر اس کا اچھا خاصا موڑ خراب نہ ہوتا
اس کا پڑھنے کو دل نہیں کیا تھا اس لیے وہ کمرے میں جا کر فریش ہو کر سو گئی تھی
اٹھی تو تب جب اس کی مما نے اسے ڈنر کے لیے بلایا اور اب اسے خیال آ رہا تھا اپنی اسسائنمنٹ کا
اس نے سوچا وہ کھانا کھانے کے بعد لکھے گی پر لکھے گی کیا اسے تو کچھ یاد ہی نہیں تھا
وہ کھانا کھاتے کھاتے اچانک پریشان ہو گئی
کا ہوا بیٹا تم نے کھانا کھانا کیوں چھوڑ دیا
سندس نے اس کو پریشان دیکھ کر پوچھا
میرا پیٹ بھر گیا
اتنا کہنے کے بعد وہ اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی
وہ اپنی مما کو کیا بتاتی کہ پچھلے سکول کالجز میں ٹاپ کرنے والی لڑکی اپنی پہلے یونی ٹیسٹ میں فیل ہونے کی تیاریاں کر چکی تھی
وہ کمرے میں آ کر پریشانی سے ادھر ادھر ٹہلنے لگی
اس نے کتاب کھول کر پڑھنے کی کوشش کی پر اس سے کچھ پڑھا نہ گیا ٹینشن کی وجہ سے
اب میں کیا کروں مجھے تو کچھ یاد بھی نہیں ہو رہا اور نہ ہی کچھ پڑھنے کو دل کر رہا ہے
کل سر بہت غصہ ہوں گے
چلتے چلتے اسے بہت سا ٹائم گزر گیا جب اس نے گھڑی کی طرف نظر دوڑائی
تو اسے معلوم ہوا رات کے 11 بج رہے ہیں
ڈنر کرنے کے بعد ٹہلنے کے علاوہ اس نے کیا ہی کیا تھا
ٹائم کو دیکھتے ہی اس کے تو چودہ طبق روشن ہو گئے
پہلے اس نے سوچا کہ اب پڑھائی شروع کرتی ہیں کچھ تو پڑھوں گی
بک کھولے ابھی سے 10 ہی منٹ ہوئے تھے اسے اوباسی پہ اوباسی انا شروع ہو گئی
پڑھتے پڑھتے کب اس کی انکھ لگ گئی اسے پتہ ہی نہ چلا
وہ کلاس روم میں اداس سی بیٹھی تھی جب ماہی اس کے پاس آ کر بیٹھی
کیا ہوا قندیل اتنی اداس کیوں ہو
یار میری اسئنمنٹ تیار نہیں ہے
بس یہی سوچ سوچ کر دماغ پھٹنے کو ہے
کچھ نہیں ہوتا یار ایک اسائنمنٹ ہی ہے تم تو ایسے منہ لٹکا کر بیٹھی ہو جیسے کوئی جنگ ہار گئی
ایسی بات نہیں ہے پہلی ٹیسٹ میں فیل
وہ افسوس سے کہتی بک کی طرف دیکھنے لگی
ماہی اس کو اس کے حال پر چھوڑتی اپنی بکس نکالنے لگی
السلام علیکم سر
وعلیکم السلام
پروفیسر شاہ کو کلاس روم میں داخل ہوتے تمام بچوں نے سلام کیا
اور اس نے بڑے تہمل سے جواب دیا
آپ سب کی اسائنمنٹ تیار ہے
پہلا سوال ہی وہ کیا ہے جس کو سوچ سوچ قندیل کے رونٹے کھڑے ہو رہے تھے
یس سر
تمام کلاس ہم آواز بولی
پروفیسر شاہ نے سب کی اسسائنمنٹ باری باری چیک کرنا شروع کی
اسائنمنٹ کو ایک نظر دیکھتا وہ ان کو ان کی غلطیاں بتاتا کر آگے گزر رہا تھا
اس کو اسسائنمنٹ چیک کرتے مسلسل اپنے اوپر کسی کی نظروں کا حصار محسوس ہو رہا تھا
جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو دوسرے رو کے پہلے ڈیکس پر
جہاں اس کلاس کی سب سے زیادہ ماڈرن لڑکی لیزا بیٹھی ہوئ تھی
لیزا ٹکٹی باندھے اس کی طرف دیکھ رہی تھی
برائون کلر کے بال گہرے گلے والی ٹی شرٹ ساتھ میں نیچے جینز پہننے
وہ اس کو ایک نظر بھی پسند نہ ائی تھی
اس کو ایک نظر دیکھتے وہ دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوا
مس لیزا
پروفیسر قلب نے اس کو پکارا جو ابھی بھی اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی
یس سر اس نے بڑے ہی دل نشین طریقے سے جواب دیا
آپ کی اسئنمنٹ کہاں ہے
یہ لیں سر اس نے اپنے بیگ میں سے اسائنمنٹ نکال کر سر کو دی
اس نے تمام اسئنمنٹ کو ایک نظر دیکھا اور اس کے ٹیبل پر واپس رکھتے آگے بڑھ گیا
قندیل کتاب کی طرف متوجہ منہ نیچے کر کے بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ماہی بھی
مس ماہین آپ کے اسئنمنٹ
یس سر
ماہین اتنا کہنے کے بعد اسسائنمنٹ سر کے ہاتھ میں تھمائی گئ
گڈ ویری گڈ
وہ اپنی اسسائنمنٹ پکڑ کر دوبارہ بیٹھ گئی
جب ماہی کو اپنے اوپر کسی کی نظروں کا حصار محسوس ہوا
اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس سے ایک ڈیس پیچھے بیٹھا لڑکا اسے مسلسل دیکھ رہا تھا
جس کا نام حارث تھا وہ بھی ان کی طرح ہی ایک سٹوڈنٹ تھا بٹ وہ شکل سے سٹوڈنٹ معلوم نہیں ہوتا تھا
اس کے دیکھنے پر وہ اسے اگنور کرتی دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئی
اتنا کہنے کے بعد وہ قندیل کی طرف متوجہ ہوا
قندیل آپ کا اسسائنمنٹ کہاں ہے
وہ جو نیچے منہ کر کے بیٹھی تھی سر کی آواز پر کرنٹ کھتی کھڑی ہوئی
وہ سر وہ………….
میں نے آپ کی اسئنمنٹ مانگی ہے
میں اسسائنمنٹ سر وہ……….
ڈر کر قندیل نے آپنے بیگ میں سے ایک فائل نکال کر سر کو پکڑائی
پروفیسر شاہ نے ایک نظر فائل کو دیکھا ہے
جو مکمل صاف صفحات پر مشتمل تھی جن میں ایک حرف تک نہ لکھا گیا تھا
اس نے ایک نظر قندیل کو دیکھا
پھر اسائنمنٹ اس کے ٹیبل پر تھا اگے بڑھ گیا
جبکہ قندیل پیچھے حیران و پریشان کھڑی اسے دیکھ رہی تھی
جب اس کے کانوں میں پروفیسر شاہ کی آواز گونجی
بیٹھ جائیں مس قندیل
وہ جلدی سے اپنے ڈیکس پر دوبارہ بیٹھ گئی
پروفیسر شاہ نے تمام کی اسئنمنٹ دیکھ لی تھی
سب سٹوڈنٹ نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے
وہ یہ بات کرتے ہوئے مسلسل قندیل کی طرف دیکھ رہا تھا جو نظریں نیچے کیے بیٹھی تھی
پروفیسر شاہ کی ایک ایک حرکت پر جس کی نظر تھی وہ تھی لیزا جس نے اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کیا تھا کہ پروفیسر شاہ پچھلے کچھ دنوں سے قندیل کی طرف مسلسل دیکھ رہے ہیں اور یہ بات اس کو بالکل پسند نہ تھی
کیونکہ وہ پہلی ہی نظر میں پروفیسر شاہ پر اپنا دل ہار بیٹھی تھی
جن کی گہری سیاہ آنکھوں میں کوئ بھی بڑی آسانی سے ڈوب سکتا تھا اور وہ تو ویسے بھی بڑی دل پھنک لڑکی تھی
کچھ غلطیاں موجود ہیں تو آپ انہیں مزید امپروو کریں
آج تو سارا ٹائم اسسائنمنٹ چیک کرنے میں گزر گیا ہے
تو لیکچر کل ہوگا
اتنا کہنے کے بعد اس نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور باہر کی طرف چلنا شروع کیا دروازے پہ پہنچ کے اس نے پلٹ کر ایک نظر قندیل کو دیکھا اور نیا حکم جاری کیا
مس قندیل آپ اگلے پانچ منٹ میں میرے آفس میں مجھے ملے
اتنا کہنے کے بعد وہ روکا نہیں بلکہ چلا گیا
میں آئ کم ان سر
وہ اسی کے انتظار میں بیٹھا تھا دروازہ ناک ہونے پر فورا بولا
یس کم ان
وہ آہستہ سے دروازہ کھولتی آفس میں داخل ہوئی
اس کا ایک نظر مکمل جائزہ لینے کے بعد جو آج بلیک کلر کا کرتا پجامہ پہنے ساتھ میں ہم رنگ حجاب لیے کافی خوبصورت لگ رہی تھی
بھرپور جائزہ لینے کے بعد وہ اپنی چیئر سے کھڑا ہوا اور آہستہ آہستہ چلتا بالکل اس کے روبرو کھڑا ہو گیا
جبکہ سر کو یوں اپنے قریب آتا دیکھ وہ دو قدم پیچھے ہوئی
آپ کو معلوم ہے کہ میں نے آپ کو کیوں بلایا ہے
وہ دو قدم اس کے مزید قریب ہوا
جب کہ وہ مزید دو قدم پیچھے ہوئی
معلوم ہے پر اس میں میری غلطی نہیں ہے
تو پھر کس کی غلطی ہے کیا میں لیکچر صحیح نہیں دیتا
بات کرتے ہوئے وہ اس کی طرف چلنا شروع ہوا
نو سر ایسی بات نہیں ہے وہ قدم پیچھے کو چلتی بولی
جب اس نے مزید ایک قدم پیچھے لیا اور وہ افس کے دروازے سے جا لگی
وہ چلتا چلتا بالکل اس کے ایک قدم کے فاصلے پر آ کر روک گیا
ایک ہاتھ پیچھے دیوار پر رکھا
جنکہ دوسرا ہاتھ وہ اس کی طرف بڑھا ہی رہا تھا جب اس کو قندیل کی گھٹی گھٹی سی آواز آئی سر آپ یہ کیا کر رہے ہیں
وہ اس کو اتنے قریب سے دیکھتا بے خود سا ہو رہا تھا
پیار ……….
وہ ایک لفظ جواب دیتا اس کی گردن کی طرف جھکا تھا جبکہ قندیل سانس روکے کھڑی تھی
ابھی وہ پھر سے کچھ بولتی جب اسے اپنی گال پر اس کے ہونٹوں کا لمس محسوس ہوا یہ محسوس کرتے ہی قندیل کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کی جسم سے کرنٹ گزار دیا ہو
قندیل نے ہمت کر کے کچھ بولنے کی کوشش کی سر پلیز پیچھے ہٹ جائیں
جب اپنے کان کے قریب اس کی خمار سے ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی
پوش می…………
کیا ………. قندیل کو ان کی بات سمجھ نہیں آئ تھی
میں نے کہا مجھے پیچھے کی طرف دھکا دو اسے اپنے کان میں پھر سے اس کی آواز سنائی دی
جس کا مطلب سمجھتے ہی اس نے پورے زور سے اس کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کی طرف دھکا دیا کہ وہ اس سے دو قدم کے فاصلے پر ہوا جب قندیل کا چہرہ سرخ اناری ہو رہا تھا شرم کی وجہ سے اور کچھ گھبراہٹ کی وجہ
اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر کو آ جائے گا
قندیل نے اسے ایک نظر دیکھا اور دروازہ کھول کے باہر کی طرف دوڑی
باہر نکلتے ہی وہ سامنے کھڑے وجود سے ٹکرائے جو کوئی اور نہیں لیزا تھی
اس نے لیزا کو دیکھا اور کلاس روم کی طرف چلی گئی
جبکہ لیزا اس کی اڑی ہوئی رنگت اور سرخ چہرہ دیکھ کر پریشان ہو گئی
وہ جو سوچ رہی تھی کے سر نے قندیل کو کیوں بولایا ہے
اس لیے وہ قندیل کے پیچھے اس کو دیکھنے آئ تھی
اس کی اڑی ہوئ رنگت دیکھ پریشان ہوئ تھی
اس کو کیا ہوا
اس نے پرسوچ لہجے میں کہا
اتنا کہنے کے بعد وہ کندھے چکھاتی آگے کی طرف بڑھ گئی
قندیل کلاس روم میں پہنچی تو اپنے ڈیس پر موجود ماہی کے گلے لگ گئی
اور رونا شروع کر دیا
جب کہ ماہی حیران و پریشان اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے پوچھ رہی تھی کہ اس کو کیا ہوا
کیا ہوا قندیل تم ایسے کیوں رو رہی ہو بتاؤ مجھے میں پریشان ہو رہی ہوں
ماہی تم کو پتہ ہے پروفیسر شاہ نے میرے ساتھ
اتنا کہنے کے بعد اس نے پھر سے رونا شروع ہو گئے
جبکہ ماہی سر پر فیسر کا نام سنتے مزید پریشان ہو گئی
اس سے ایک ڈیس پیچھے بیٹھا حارث بھی پروفیسر شاہ کا نام سنتے کچھ پریشان ہوا تھا
اس نے ایک نظر ماہی کو دیکھا اور اشارے سے پوچھا یہ قندیل کو کیا ہوا ہے
جب کہ ماہی نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا
حارث اس کا اشارہ سمجھتے اٹھتا کلاس روم سے باہر چلا گیا
جب کے پیچھے ماہی قندیل کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی