قسط: 4
یہ مجھے کیا ہو گیا ہے میں ایسا تو نہیں تھا کیا مجھے اس سے پیار ہو گیا ہے
وہ کچھ ٹائم پہلے ہوئے واقعہ کے بارے میں سوچ رہا تھا جب دروازہ اچانک سے کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا
قندیل کو روتے ہوئے دیکھ وہ پریشان ہو گیا تھا ماہی کا اشارہ سمجھتے وہ سیدھا باہر کو نکلا اور قلب کے آفس میں آیا تھا کیونکہ قندیل نے روتے ہوئے پروفیسر شاہ کا نام لیا تھا
تم نے کیا کیا ہے قندیل کے ساتھ حارث نے اندر داخل ہوتے ہی قلب سے سوال پوچھا
تم کس کی اجازت سے اندر ائے ہو
میں کیا پوچھ رہا ہوں تم نے کیا کیا ہے قندیل کے ساتھ حارث پھر غصے سے بولا
میں نے کہا تم کس کی اجازت سے اندر آئے ہو
مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے
تمہیں کیوں اجازت کی ضرورت نہیں ہے میں تمہارا پروفیسر ہوں تم اس طرح سے میرے ساتھ بات نہیں کر سکتے
پروفیسر تم یہاں ہو قلب شاہ تم یہ مت بھولو کے تم ایک افیسر ہو
تم کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے مجھے بہت اچھی طرح سے پتا ہے کہ میں کیا ہو
میں تم سے کچھ پوچھنے آیا ہوں حارث نے اصل بات کی
سوال جواب بعد میں پہلے باہر جاؤ اور ناک کر کے اجازت لے کر دوبارہ اندر آؤ اس سے پہلے میں تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا
قلب میری بات سنو حارث پھر سے بولا
میں نے جو کہا ہے وہ کرو باہر جاؤ اور ناک کر کے اندر آؤ
حارث نے ایک بے بس نظر اس پہ ڈالی اور باہر کو چلا گیا اور دروازے کو ناک کیا
میں آئ کم ان سر حارث نے پوچھا
یس کم ان
پوچھو کیا بات کرنی ہے تم نے مجھ سے
تم نے مس قندیل کے ساتھ کیا کیا ہے جو وہ اتنا رو رہی ہے
کیا کہا قندیل رو رہی ہے
قلب سن کر پہلے تو حیران ہوا پر بعد میں پریشان ہو گیا تھا
ہاں وہ بہت زیادہ رو رہی ہے تم نے ایسا کیا کیا ہے اس کے ساتھ جو وہ اتنا رو رہی ہے
میں نے اس کے ساتھ کچھ نہیں کیا
پھر وہ تمہارا نام لے کر اتنا رو کیوں رہی ہے
مجھے نہیں پتا وہ کیو رو رہی ہے اور اب تم جا سکتے ہو
اتنا کہنے کے بعد اس نے اپنا روخ اس کی طرف سے موڑ لیا
حارث اس کی کمر کو ایک نظر دیکھتا پلٹ گیا
وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا
جبکہ وہ اس ان کے بارے میں سوچنے لگا جب اس نے ایک اہم فیصلہ لیا تھا
……………………………………………………………..
تین منزل کے اس گھر میں بس تیسری منزل اور پہلی منزل کی ایک ایک کمرے لائٹ جل رہی تھی پہلی منزل میں اس کی ماں نماز کے بعد تسبی پڑ رہی تھی
جبکہ وہ پچھلے دو گھنٹے سے ٹریڈ مل پر بھاگ رہا تھا اس کے جسم پر پسینے کے قطرے نمودار ہو رہے تھے جو اس کی اس محنت کے وجہ سے تھے
اس کی چوڈی کمر پر ایک بہت بڑے بچھو کا ٹیٹو بنا ہوا تھا پسینے کی وجہ سے بچھو چمک رہا تھا جو کہ اس کو اور خطرناک بنا رہا تھا
اس کی نظر سامنے غیر معری نکتے پر تھی
پر اس کے دماغ میں اس کے باپ کے الفاظ گھوم رہے تھے
میں اس داغ کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا کے میری وجہ سے ایک بے گناہ کی جان گئ اس لیے میں جینا نہیں چاہتا میری موت کا زمہ دار میں خود ہو میری موت کا کوئ اور زمہ دار نہیں .
قلب ……..
ابھی وہ سوچ ہی رہا ہوتھا کے اس کو پیچھے سے آواز ائ
اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو اس کی جان سا پیارا دوست حارث اس کی طرف دیکھ رہا تھا قلب کیپٹن کی طرف سے آرڈر ایا ہے حارث نے اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر کہا
وہ ٹریڈ مل سے اترا اور اپنی شرٹ اٹھاتا ہے اس کی طرف بڑھا تم جاؤ میں فریش ہو کے آ رہا ہوں
اتنا کہنے کے بعد وہ ڈریسنگ روم میں گھس گیا دروازہ بند کرتا پلٹ گیا اور سیڑھیاں نیچے اترتا ماں جی کے کمرے میں داخل ہوا
جب کہ قلب پیچھے فریش ہونے کے بعد ماں جی سے ملتا اس کو لیتا اپنی گاڑی میں بیٹھا اور اپنے منزل کی طرف روانہ ہوا
وہ جب اپنی منزل پر پہنچے تو ان کے سامنے ایک بہت بڑی بلڈنگ تھی اس میں بڑے حرفات میں لکھا ہوا تھا
آرمی سینٹرل کنٹرول سینٹر
وہ ایک نظر اس بلڈنگ کو دیکھتے اندر چلے گئے لفٹ میں کھڑے ہوتے ہی قلب نے دسویں مالے کا بٹن دبایا
جب وہ اپنی منزل پر پہنچے تو کچھ قدم چلنے کے بعد ایک کمرے کے باہر کھڑے ہوئے اس نے دروازے کو ناک کیا
یس کم ان
اندر سے بس اتنی اواز ائی جو کہ کسی مرد کی بھاری اواز تھی
دونوں دروازہ کھول کے اندر آ گئے
سامنےکرنل اقبال خان کھڑا تھے جو ان کی طرف ہی دیکھ رہا تھے
اؤ میرے شیر جوانو وہ ان کو دیکھتا خوش مزاجی سے بولا
وہ دونوں بھی مسکرا کر ان کے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے
کرنل اقبال کچھ ٹائم تک قلب کو گہرے نظروں سے دیکھتا رہا اور بعد میں بولا قلب ابھی بھی تمہارا یہ ہی فیصلہ ہے
جی. ایک لفظ جواب دیا
قلبتم یہ جاب چھوڑنے کے بجائے کچھ مہینے کی لیو بھی تو لے سکتے ہو
سر میں ایسا کر سکتا ہوں پر مجھے معلوم نہیں کہ اس کیس کو حل کرنے میں کتنا ٹائم لگے گا
اس لیے میں نے سوچا کہ میں یہ جاب چھوڑ دوں کیونکہ میں اپنے باپ کو انصاف دلائے بغیر موت کو گلے نہیں لگانا چاہتا
میجر قلب اپ یہ جاب نہ چھوڑی میں اپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جتنا بھی ٹائم لگا اپ کو اپنا کیس سالو کرنے کے لیے اپ کو دیا جائے گا
بس اپ یہ جاب نہ چھوڑیں اپ نے اپنی اس چھے سال کی جوب میں جتنے بھی کیس لیے ہیں وہ تمام حل کیے ہیں
جو ایک عام انسان کے کرنے کے بس کی بات نہیں ہے
اپ ہمارے شیر ہیں ہم اپ کو ایسے نہیں کھو سکتے
اپ چھٹیاں لے لیں جتنی مرضی لینی ہے بلکہ اپ کو جو جو مدد چاہیے ہوگی گورنمنٹ کی طرف سے اپ کو ملے گی
بس اپ جاب نہ چھوڑیں
سر اپ سمجھ کیوں نہیں رہے مجھے بالکل بھی نہیں پتا ایک سال لگے ہو سکتا ہے دو سال لگے اور ہو سکتا ہے 10 سال بھی لگے
ہم کہہ رہے ہیں نا جتنی چھٹیوں کی ضرورت ہوئی تم کر لو ایک سال کے اندر اندر تم اس کیس کو ختم کر لو گے
اس کے بعد ہمیں تمہارا انتظار رہے گا کرنل اقبال نے مسکرا کر کہا اب ان کی طرف دیکھتا رہا
اور پھر مسکرا کر سر ہاں میں ہلایا پر میری ایک شرط ہے کیسی شرط کرنل اقبال نے پوچھا بات یہ ہے سر کہ اس یونی میں ہوئی چھ سال پہلے ریڈ کی وجہ سے اس یونی کے تمام برے کام ختم ہو چکے تھے اس لیے یہ میرے لیے کوئی مشن نہیں ہے پر میں پھر بھی میجر ماہین اور میجر حارث کو اپنے ساتھ لے کر جانا چاہوں گا
کیونکہ یونی میں مجھے مدد کی ضرورت ہوگی جو لڑکیوں میں رہ کر میجر ماہین اور لڑکوں میں رہ کر میجر حارث کریں گے
یہ سننے کے بعد کرنل اقبال نے سر ہاں میں ہلایا اور حارث کی طرف دیکھا جیسے کہنا چاہتے ہوں کیا تمہیں منظور ہے یہ شرط
سر مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے قلب کے ساتھ جانے میں
حارث نے ان کی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے کہا حارث کی بات سننے کے بعد اقبال کافی مطمئن ہو گئے اس لیے انہوں نے ایک پیج نکالا اور اس پر سائن کر دیا
ہے تمہاری چھٹیوں کی درخواست جس پر میں نے سائن کر دیا ہے مجھے یقین ہے کہ یہ کیس تم کچھ ہی منتھ میں سالو کر لو گے اور اپنے باپ کو انصاف دلاؤ گے انشاءاللہ تم سرخرو ہو کر لوٹو گے
انہوں نے بات کرتے ہوئے مان سے اس کا کندھا تھپتھپایا اور کمرے سے نکل گیا
جب کہ پیچھے حارث اور قلب نے ایک دوسرے کو دیکھا حارث نے اٹھ کر قلب کو گلے لگایا اور اس کو حوصلہ دینے کے انداز میں اس کا کندھا تھپتھپایا
یار مجھے یقین ہے تم یہ کیس بہت جلد حل کر لو گے تمہارے باپ کی بے گناہی ثابت ہو جائے گی
انشاءاللہ قلب نے اس کی بات سننے کے بعد کہا
…………………………………………………………….
وہ ابھی اپنے خیالوں میں ہی گم تھا جب اس کی نظر ٹائم پر گئی تو اسے معلوم ہوا کہ یونی کئ چھٹی ہونے کا ٹائم ہو گیا ہے
اور اج اس نے پہلے لیکچر کے علاوہ کوئی لیکچر نہیں لیا تھا
وہ اپنے خیالوں میں اس قدر گم تھا کہ اسے ٹائم کا پتہ ہی نہ چلا جب اس نے ٹائم کو دیکھا تو اس کو ایک دفعہ پھر سے قندیل کیا تھا اور وہ خوبصورت لمحات بھی جو اس کے ساتھ گزارے تھے ان کو یاد کرتے اس کا ہاتھ بے سختا اپنے ہونٹوں کی طرف گیا
اور وہ مسکرا دیا
تم مجھے پاگل کر دو گی
قندیل میں تمہارا کیا کروں اتنا کہنے کے بعد اس نے اپنا لیپ ٹاپ والا بیگ اٹھایا اور باہر کی طرف چلا جب اسے سویپر نے آ کر بتایا کہ پرنسپل اسے اپنے روم میں بلا رہا ہے
یہ پرنسپل سر مجھے کیوں بلا رہے ہیں اللہ جانے اس نے یہ سوچتے ہوئے قدم پرنسپل کے افس کی طرف بڑھا لی
جب کہ قندیل جو اج کے ٹیسٹ میں بری طرح فیل ہونے پر بہت سارا رونے کے بعد اب لائبریری میں بیٹھی اپنا سلیبس کور کرنے کی کوشش کر رہی تھی اسے ہوش تو تب ایا جب اس نے ٹائم کی طرف دیکھا تو اسے معلوم ہوا یونی کی چھٹی ہوئے ایک گھنٹہ گزر چکا ہے ٹائم کو دیکھتے تو اس کے 14 طبق روشن ہوئے
ہائے اللہ مجھے اتنا ٹائم کیسے لگا
مجھے پتہ کیوں نہیں چلا یہ سوچتے ہوئے اس نے بیگ اٹھایا اور باہر کی طرف دوڑ لگائی جب وہ باہر مین گیٹ پر ائی تو اسے ایک دو لڑکیوں کے علاوہ کوئی اور نہ دکھا جو شاید اپنے گھر والوں کے انے کا انتظار کر رہی تھی
اللہ میں کیا کروں میری تو یونی بس بھی چھوٹ گئی اب میں گھر کیسے جاؤں گی
اس نے اپنے بیگ میں سے موبائل نکالا اور اپنی مما کو فون کرنے لگی
مما میں قندیل بات کر رہی ہوں
جی جی بیٹا کیا ہوا ابھی تک تم ائے کیوں نہیں ہو خیریت تو ہے
جی مما اج میں لائبریری میں بیٹھ کر پڑھ رہی تھی تو مجھے ٹائم کا پتہ نہ چلا اور بس نکل گئی اپ پلیز مجھے لینے ا جائیں
اچھا بیٹا میں ابھی ڈرائیور کے ساتھ ا رہی ہوں تم ادھر ہی رکو
وہ اپنی ماں سے بات کرنے کے بعد کچھ حد تک مطمئن ہو گئی تھی اور ادھر بیٹھ کر انتظار کرنے لگی
جب ایسے لگا جیسے پیچھے سے کسی نے اسے پکارا ہو اس سے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا ہو سکتا ہے یہ میرا وہم ہو
اس نے سوچا اور دوبارہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئے جب اسے ایک دفعہ پھر محسوس ہوا کہ کوئی اسے پکار رہا ہو اس سے اب یقین ہو چلا تھا کہ کوئی سے بلا رہا ہے اس نے اپنا بیگ ادھر ہی رکھتے ہوئے اس نے قدم سٹاف روم کی طرح بڑھائے جہاں سے اسے اواز ان ارہے تھے
ہو سکتا ہے کوئی ٹیچر مجھے بلا رہا ہو
دروازہ کھول ہی رہی تھی جب کسی نے اندر سے اس کے کلائی کو کھینچا
وہ لڑکھڑاتی ہوئی سیدھا سامنے والے کے سینے سے ٹکرائی اس نے ڈرتے ہوئے اپنے نظریں اٹھا کر دیکھی تو وہ کوئی اور نہیں پروفیسو قلب تھے
جس نےاس کی کلائی کھینچی تھی
اس سے پہلے تو حیرت ہوئی پر حیرت کے بعد اسی شدید غصہ ایا تھا اس حرکت پر
اس نے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش سر میرا ہاتھ چھوڑیں کیوں کر رہے ہیں ایسا
چھوڑ دوں گا چھوڑ دوں گا پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو
کیسا سوال وہ اپنے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کو رد کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھتے پوچھنے لگی
تم اتنا زیادہ کلاس روم میں رو کیوں رہی تھی
میں ہماری گال پر کسی تو کیا تھا کون سے تم پر اپنی سب شدتیں بیان کر دی تھی کر دی تھی جو تم اتنا رو رہی تھی
پہلے تو وہ نہ سمجھی میں اس کی طرف دیکھتی رہی پر بات سمجھ انے کے بعد اسےشدید قسم کی شرم ائی تھی
اور نظریں جھکا لی تھی
یہ منظر دیکھ کر قلب ایک بار پھر اس پر قربان گیا تھا
سر یہ آپ کو چھوٹی بات لگتی ہے وہ منہ نیچے کر کے منمنائ تھی
آپ میرے محرم نہیں ہیں جو مجھے چھو سکتے ہیں تو اپ اپنی حد میں رہیں اور میرا ہاتھ چھوڑو مجھے جانے دو
.
مجھے لگتا ہے میری گاڑی اگئی ہے اتنا کہنے کے بعد ایک جھٹکے میں اس نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور دروازے سے باہر نکلتی چلی گئی
جب کہ پیچھے کھڑا قلب اس کی بات کو سوچ رہا تھا جو وہ ابھی کر کے گئی تھی
آپ میرے محرم نہیں ہے جو اپ مجھے یوں چھو سکتے ہیں
اس کی یہ بات یاد کرتے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا
کیا کر سکتا ہو جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب جو میں نے سوچ لیا ہے اس پر وہ عمل کرتے ہوئے دیر نہیں کرنا چاہتا
ماضی
سلطان کے شادی کے لیے نہ ماننے پر کبیر سندس کو ہاسٹل سے اپنے شہر والے گھر لے ایا تھا
کبیر مجھے نہیں لگتا آپ کو ایسا کرنا چاہیے تھا
اب آپ بابا آپ کو اپنی جائیداد سے آق کر دیں گے
میرے لیے تم ضروری ہو سندس نہ کہ کوئی دولت
مجھے بھی صرف کبیر اپ سے محبت ہے کسی دولت کی ضرورت نہیں بس اپ میرے ساتھ دیجیے گا
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت کم نہیں ہوئی تھی بلکہ بڑی تھی
اتنی محبت کے باوجود اللہ تعالی نے ان کو اولاد جسی نعمت سے محروم رکھا ہوا تھا
جس کا کبیر کو تو نہیں مگر سندس کو بہت زیادہ افسوس تھا
کبیر اکثر اس سے یہی کہا کرتا تھا کہ جب اللہ کی مرضی ہوگی ان کو اولاد مل جائے گی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں مگر سندس یہ بات دل پر لگا کر بیٹھ گئی تھی
کہ وہ ابھی تک ماں نہیں بن سکی حالانکہ ان دونوں کی رپورٹس بالکل کلیئر تھی
جبکہ صغیر کو اللہ تعالی نے شادی کے پہلے سال ہی بیٹے سے نوازا تھا
جس کا نام انہوں نے سفیان رکھا تھا
صغیر کی شادی کے پانچ سال بعد کبیر نے شادی کی تھی
اور اج کبیر کی شادی ہوئ کو بھی پانچ سال ہو چکے تھا
جبکہ سفیان اب 10 سال کا تھا
ان کی شادی کی انیورسری پر سندھ نے کبیر کو فورس کیا کہ بس پھر حویلی جائے اور بھائی کہ وہ ہم کو ایکسیپٹ کر لیں
ادھر مان تو گیا تھا پر اسے زیادہ امید نہیں تھی کہ اس کا باپ مان جائے گا ان کے لیے
جبکہ دوسری طرف سلطان شاہ جو اپنے چھوٹے بیٹے سے سب سے زیادہ محبت کرتا تھا
اور اس کی جدائی میں بالکل نڈھال ہو گیا تھا
جوکہ کبیر کی ماں کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا
اج وہ 5 سال بعد اپنے گھر واپس جا رہا تھا اپنی حویلی اپنے گاؤں اپنے والدین کے پاس اپنے بچپن کے پاس اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی ہمسفر اس کی بیوی بھی تھی
وہ دونوں جب حویلی پہنچے تو کنفیوز اور ڈرے ہوئے تھے
انہوں نے حویلی میں قدم رکھا تو ایک ملازم چل کر ان کی طرف ایا
ملازم نے کبیر کو دیکھتے ہی پہچان لیا تھا
چھوٹے سائیں اپ اگئے واپس اپ کو پتہ ہے اپ کے بابا اپ کے بعد کتنے نڈھال ہو گئے ہیں
جبکہ اپ کے ماں نے تو رو رو کے اپنا برا حال کر لیا ہے
وہ اپنے چھوٹے سائیں کو دیکھتے ہی سب کچھ بتانے لگ گیا یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کا چھوٹا سائیں اپنی حویلی واپس آ گیا ہے
وہ خوشی کے مارے ان سے بیٹھنے کا پوچھنا بھی بھول گیا تھا
خدا بخش کیا مجھے حویلی کے اندر لے کر نہیں چلو گے یہ یہیں سب سوال کرتے رہو گے
کبیر نے اس کی بےتابی کو دیکھتے مسکرا کر اس سے کہا
مافی چھوٹے سائیں آ جائے اندر آپ کا ہی گھر ہے
خدابخش آگے سی پرے ہٹ گیا تو وہ اندر آئے
وہ جا کر سیدھا اس کمرے میں بیٹھ گئے جہاں مہمانوں کو بیٹھایا جاتا ہے
چھوٹے سائیں آپ اندر آئے یہاں کیو بیٹھ گئے ہے
نہیں تم بابا سائیں کو بولا کر لاؤ
پر سائیں
میں نے جو کہا ہے وہ کرو خدا بخش
خدا بخش نے کچھ کہنا چاہا تو کبیر نے اس کی بات کو بیچ میں ہی ٹوک دیا
خدا بخش اس کے بعد سنتا سیدھا سلطان شاہ کے کمرے میں گیا
کیا بات ہے اتنی کس بات کی جلدی ہے کہ تم نے دروازہ بھی ناک کرنا ضروری نہ سمجھا خدا بخش
خدا بخش جو جلدی جلدی میں دروازہ ناک کرنا بھول گیا تھا ان کی اواز سنتے ہی کچھ بولتے بولتے رک گیا
معافی بڑے سائیں
اچھا بولو کیا بات ہے جس کی اتنی جلدی مچا رکھی ہے تم نے
بڑے سائیں وہ حویلی میں چھوٹے سائیں آئے ہیں
خدا بخش کا اتنا کہنا تھا کہ سلطان شاہ جو اپنی چادر درست کر رہے تھے چادر درست کرتے کرتے ان کے ہاتھ رک گئے
کیا کہا تم نے انہوں نے حیرانگی سے مڑ کر خدا بخش سے پوچھا
وہ حویلی میں چھوٹے سائیں آئے ہیں جو مہمانوں کو بیٹھانے والے کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں
تم نے ہمارے بیٹے کو مہمانوں والے کمرے میں کیو بیٹھانے والے کمرے میں کیوں بیٹھایا خدا بخش کیا تم کو معلوم نہیں کہ وہ اس حویلی کے چشم و چراغ ہیں
خدا بخش کی بات سن کر وہ غصے سے دہاڑے تھے
میں نے چھوٹے سائیں کو کتنی دفعہ کہا کہ وہ اگے حویلی کے اندر آجائے پر وہ میری بات ماننے سے انکاری تھے
خدا بخش کی بات سنتے کے بعد سلطان شاہ نے اپنی چادر درست کی اور جلدی جلدی مہمانوں کو بیٹھانے والے کمرے کی طرف بڑھے
جب وہ اس کمرے میں داخل ہوئے تو کچھ پل کے لیے ساکت رہ گئے
اج کتنے سال بعد وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو دیکھ رہے تھے دل تو کر رہا تھا کہ دوڑ کر اسے سینے سے لگا لے
مگر ہائے رے یہ انا کی دیوار
جبکہ کبیر شاہ کی حالت بھی ان سے کچھ مختلف نہ تھی اتنے سالوں بعد اپنے باپ کو نڈھال سی حالت میں دیکھ کر وہ اندر سے ٹوٹ گئے تھے
کبیر شاہ کی انکھوں سے انسو بہناں ہونا شروع ہو گئے
بابا سائیں
کبیر شاکروں سے یہ اواز سرگوشی کی مانند نکلی تھی