قسط: 8
کیاہوا بچے تم ایسے کیوں رو رہی ہو
اس کے تایا ابو اور اس کے بیٹے کے گھر سے جانے کے بعد جب وہ قندیل کے کمرے میں ائی اسے روتا دے تڑپ کر اس کے پاس پہنچی
امی اپ تایاابو اور سفیان کو روک دینا کہ وہ ہمارے گھر نہ آیا کرے
ابھی ابھی سفیان مجھے دھمکی دے کر گیا ہے
کہ اگر میں نے رشتے کے لیے ہاں نہ کی تو وہ میرے ساتھ کچھ برا کر دے گا اپ ان کو رکتی کیوں نہیں
کیسے روک دو بیٹا اس گھر کا تمام خرچہ انہوں نے ہی اٹھایا ہوا ہے مانا کہ اس بزنس میں ہمارا بھی حصہ ہے پر ہم وہ بزنس نہیں چلا سکتے
ہم اس گھر کی چار دیواری میں ہی محفوظ ہیں ہم یہاں سے باہر نکلے تو باہر موجود بھیڑیے ہمیں نوچ کھائیں گے تم سمجھ کیوں نہیں کر رہی ہو
امی جب سفیان اس گھر میں اتا ہے نا تو میں اس گھر میں بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتی
امی اپ پلیز دادا ابو سے بات کریں نا
بچپن میں وہ مجھ سے کتنی محبت کرتے تھے بابا کے جانے کے بعد چاہے انہوں نے نہ کی ہو
پر وہ میری بات سمجھے گے ضرور
تایا ابو کو روک دیں گے ہمارے گھر انے سے یا سفیان کی سچائی میں انہیں بتا دوں گی
نہیں میری جان تم دادا ابو کا کچھ نہیں بتاؤ گی
وہ ہمیں ہی غلط سمجھیں گے میں کرتی ہوں بات تم فکر نہ کرو
اتنا کہنے کے بعد قندیل کو اپنے گلے لگا لیا
اور اسے چپ کروانے لگی
جبکہ وہ اپنی ماں کی اغوش پاتے ہی کچھ ہی ٹائم میں نیند کی وادیوں میں اتر گئی
ماضی
پروفیسر کبیر میری بات سنیے گا
وہ ابھی لیکچر لے کر نکلا ہی تھا جب اسی کی کلاس کی لڑکی نے اسے پیچھے سے اواز دی
جی بولیں اپ کو مجھ سے کیا بات کرنی ہے
پروفیسر کبیر اس کی طرف پلٹا اور جواب دیا
سر ہم یہاں بات نہیں کر سکتے میرے ساتھ ائیں گے ہم کینٹین میں بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں
نو مس میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے اپ کو جو بات کرنی ہے یہی کر لیں
پروفیسر کبیر نے ایک نظر اپنے ہاتھ پر پہنی کھڑی کو دیکھتے اس کو جواب دیا
سر پلیز بات ضروری ہے
اوکے تو پھر ہم بعد میں بات کر لیں گے اتنا کہنے کے بعد وہ پلٹا ہی تھا کہ اسے پیچھے سے اواز ائی
سر میں اپ سے محبت کرتی ہوں اپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں
یہ میرا لاسٹ سمسٹر ہے ہو سکتا ہے اس کے بعد میں اپنے جذبات اپ کو نہ بتا سکوں
رابعہ نے اتنا کہنے کے بعد اپنا سر جھکا لیا
جوکہ سامنے کھڑا کبیر کچھ ٹائم تک اس کے الفاظ کے بارے میں سوچتا رہا
کہ کیا یہ الفاظ رابعہ نے ہی بولے ہیں
رابیہ ان کے کلاس کی زیادہ مذہبی لڑکی تو نہیں تھی مگر اپنے حدود جانتی تھی
وہ میرٹ پہ یہاں پڑھ رہی تھی اچھی خاصی لائک سٹوڈنٹ تھی ان کی کلاس کی
کبیر کو اس سے ایسی حماقت کی توقع بالکل بھی نہیں تھی
مس رابیہ اپ جانتے ہیں اپ کیا بول رہی ہیں میں اپ کا ٹیچر ہوں اور اگر ٹیچر نہ بھی ہوتا تو میں تو میں ایک شادی شدہ انسان ہوں اور میری 12 سال کی بیٹی ہے
رابیہ کی بات سننے کے بعد کبیر نے غصے سے کہا
سر مجھے پتہ ہے کہ اپ شادی شدہ ہیں اور اپ کی بیٹی بھی ہے پر میں آپ کی دوسری بیوی بننے کو تیار ہو پلیز مجھ سے شادی کریں
رانیہ نے ایک آس بھری نظر سے کبیر شاہ کو دیکھا
جبکہ اس کے یوں بات کرنے اور اس کے یوں دیکھنے سے کبیر شاہ کو اس پہ مزید غصہ ایا تھا
مس رابیہ اپ جا رہی ہیں یا میں پرنسپل سے شکایت کروں اور اپ کو اس یونیورسٹی سے نکلوا دوں
ایک منٹ کے اندر اگر اپ یہاں سے نہیں گئی تو یہ اپ کے لیے بہت برا ہوگا
اب کی دفعہ کبیر شاہ غصے سے دہاڑا تھا
جبکہ اس کی دہاڑ سن کر رابعہ اندر سے پوری کانپ گئی تھی
اس کی دھاڑ صرف رابیہ نے ہی نہیں بلکہ آس پاس گزرتے سٹوڈنٹس نے بھی سنی تھی
تمام سٹوڈنٹس رک کر پروفیسر کبیر اور ان کے سامنے کھڑی زاویہ کو دیکھنے لگے
جبکہ تمام سٹوڈنٹس کو اپنی طرف دیکھتے پاں کر وہ دونوں ہی شرمندہ ہو گئے تھے
مس رابیہ اپ پلیز کلاس میں چلی جائیں اور اس بات کو بھول جائیں کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اور پلیز اس موضوع پر میرے ساتھ دوبارہ کوئی بات نہ کریے گا
اتنا کہنے کے بعد پروفیسر کبیر رکے نہیں بلکہ اپنے اگلے پیریڈ کے لیے چلے گئے تھے
جب کے پیچھے وہ کھڑی اپنے انسو روکنے کی کوشش کرتے واش روم کی طرف چلی گئ
یونی کی چھٹی ہونے کے بعد وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا اج ہوئی اس کے اور رابیہ درمیان کی باتوں کے بارے میں سوچتے وہ اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا جب سامنے سے آتے ہوئے لوڈر ٹریک سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا
یہ اس پر کوئی 15 دفعہ جان لیوا حملہ کیا گیا تھا
یہ سب کچھ قندیل کے پیدا ہونے کے کچھ عرصے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا
پہلے اسے لگتا تھا جیسے اس پر نظر رکھی جا رہی ہے مگر قندیل کے پیدا ہونے کے بعد اس پر کئی دفعہ جان لیوا حملہ کیا گیا جس پر وہ قسمت سے ہمیشہ بچ جاتا
وہ جب گھر پہنچا تو قندیل نے اسے سب سے پہلے گلے لگایا
السلام علیکم بابا آپ آ گئے اپ کو پتہ ہے اج کیا ہوا
اج میں نے اپنی کلاس میں ٹاپ کیا ہے اب میں نائنتھ میں ہو گئی ہو اپ کی بیٹی کتنی بڑی ہوگی نا
قندیل نے اپنے باپ کے اتے ہی اپنے پورے دن کی روداد اسے سننا شروع کر دی جو اس کے روز کا مشغلہ تھا جبکہ کچن کے دروازے کے پاس کھڑی سندس ان دونوں کو دیکھ کر دل کھول کر مسکرا رہی تھی
بیٹا بابا ابھی تو کام سے ائے ہیں سلام بلانے کے بعد سب سے پہلے ان کو بٹھا کر پانی کا پوچھتے ہیں تم کیا یہ لگ جاتی ہو یہ اچھی بات نہیں ہوتی قندیل
سوری بابا میں ابھی اپ کے لیے پانی لے کے اتی ہوں اتنا کہنے کے بعد وہ جلدی سے کچن کی طرف بھاگی
کیا ہوا کبیر اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہو
کچھ نہیں بس اج میرا ایکسٹنٹ ہوتے ہوتے بچا اللہ نے ہی بچا لیا ورنہ میرا دھیان بالکل بھی اس کی طرف نہیں تھا
کبیر اپ پولیس میں رپورٹ کیوں نہیں کرتے یہ کوئی اپ کے اوپر 15 جان لیوا حملہ ہے ہو گیا مانا کہ ایک دفعہ اتفاق ہو گیا دو دفعہ اتفاق ہو گیا تین دفعہ بھی اتفاق ہے صحیح
مگر یہ 15 16 دفعہ ہو گیا ہے کبیر مجھے لگتا ہے کہ کوئی اپ کو دشمن ہے جو اپ کو مارنا چاہتا ہے اپ رپورٹ کریں میرا اپ کے علاوہ اس دنیا میں کوئی نہیں ہے
اپ پریشان نہ ہو سندس میں کرتا ہوں رپورٹ مجھے بھی لگ رہا ہے کہ یہ واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں ابھی وہ بات کر ہی رہے تھے جب قندیل گلاس میں کبیر شاہ کے لیے پانی لے کر ائی
بابا اپ نے اج میرے ساتھ مول جانا ہے میں نے اپنی نیو بکس نیو بیگ نیو یونیفارم نیو شوز نیو پین سب کچھ نیو لینا ہے ٹھیک ہے
ٹھیک ہے میری جان ہم ضرور مول جائیں گے اور اپ کے لیے سب کچھ نیو لے گے ابھی جائیں فریش ہو کر ائیں اور بابا کو بھی فریش ہونے دیں تب تک میں کھانا لگاتی ہوں اور سب کھانا کھاتے ہیں اس کی بات سننے کے بعد سندس نے جواب دیا اور اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی
جبکہ وہ اپنے بابا کی گال پر محبت سے پیار کرتی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی اس کے پیچھے کچھ سوچتے ہو اٹھے اور اپنے کمرے کی طرف چلے گئے
بولو کیا انفارمیشن ہے
قلب نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا
ہمیں ہسٹری روم سے یہ پرانے پرنسپل کی یہ فائل ملی ہے اور ایک بڑی انفارمیشن
ہسٹری روم سے نکلنے کے بعد وہ دونوں سیدھا قلب کی طرف ائے تھے کیونکہ قلب اج یونیورسٹی نہیں گیا تھا تو وہ اپنے سیکرٹ روم میں بیٹھا ان دونوں کا انتظار کر رہا تھا جنہوں نے فون کر کے بتایا تھا کہ وہ فائل اور ایک اہم انفارمیشن لے کر اس کی طرف ہی ا رہے ہیں
جیسا ہم سمجھ رہے تھے جیسا ہم سوچ رہے تھے ویسا بالکل بھی نہیں ہے یہ جو کیس ہے یہ بہت پیچیدہ ہے بالکل ایک مسٹری کی طرح ہم اسے سلجھانے کے لیے کافی محنت کرنی پڑے گی اور اس بات کا ثبوت اس فائل میں ہے کہ یہ کیس کتنا مشکل ہے
کیوں ایسا کیا ہے اس فائل میں حارث جس نے تمہیں سوچنے پر اتنا مجبور کر دیا
قلب نے اس کی بات سننے کے اس سے تفشیشی انداز میں پوچھا
قلب اس فائل میں واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ اس یونی کا جو پرانا پرنسپل تھا اس نے اپنی تمام پڑھائی میرٹ پہ کمپلیٹ کی تھی وہ اپنے کالج کا لائک فائک بچا تھا جس نے میرٹ پر اپنی تعلیم کمپلیٹ کی تھی اس کی تمام ڈاکیمنٹش اس فائل میں ہیں اس بات سے یہ تو کلیئر ہو جاتا ہے کہ وہ پرنسپل کوئی اباؤ اجداد کی طرف سے امیر نہیں تھا وہ جتنا بھی امیر ہوا اس یونیورسٹی میں ا کر ہوا
اج سے سات سال پہلے تمہارے بابا اور میرے بابا نے جو ریڈ کی تھی جس میں وہ قتل ہوا تھا
ریڈ میں یہ چیز واضح ہو گئی تھی کہ اس یونیورسٹی میں غلط کام کیے جاتے ہیں یعنی کہ لڑکوں کی سمگلنگ ڈرگز کی سمگلنگ اور یہ ریڈ کامیاب بھی رہی تھی
اس ریڈ میں اس یونیورسٹی کی تمام غلط کام جڑ سے اکھاڑ دیے گئے تھے اور اس ریٹ کے بعد وہ پرنسپل بھی نکال دیا گیا تھا اس کا لائسنس کینسل کر دیا گیا تھا اور پھر سال کے اندر اندر اس پرنسپل کی کار ایکسیڈنٹ میں موت بھی ہو گئی یہ بات تو کلیئر ہے کہ اس پرنسپل نے یہ تمام غلط کار پیسے کمانے کے لیے کیا جو اسے ملے بھی مگر یہ مگر یہ کلیئر نہیں ہے کہ یہ کام اس نے خود کیے یا اس سے کروائے گئے رائٹ
کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا حارث کیا یہ کام اس نے نہیں کیے تھے کیا
نہیں قلب یہ کام اسی نے ہی کیے تھے مگر یہ اس سے کروائے گئے تھے یہ ذریعہ تھا یہ کام کرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کوئی اور تھا
تم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو کیا تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے اس چیز کا
ہاں ہے میرے پاس ثبوت حارث نے اس کی بات سننے کے بعد کہا اور اور ایک نظر ماہی کو دیکھا جو اس کے ساتھ ہی کھڑی تھی
ہم اسٹری روم میں فائل ڈھونڈنے گئے تو جب ہم فائل ڈھونڈ رہے تھے تو ہمیں ہسٹری روم کے باہر کسی کے قدموں کی اواز ائی اور وہ ایک نہیں تین تھے ہم جلدی سے ہسٹری دوم میں موجود ایک ٹیبل کے پیچھے چھپ گئے تب ہمیں اس کمرے میں اواز ائی کہ لیاقت کی فائل ڈھونڈو جو کہ اس یونیورسٹی کے پرانے پرنسپل کا نام تھا
انہوں نے تقریبا دو ڈھائی گھنٹے فائل ڈھونڈی مگر وہ فائل پہلے ہی ہمارے ہاتھ لگ چکی تھی
مگر اس دوران وہ باتیں کر رہے تھے ان دونوں کا سربراہ بولا اگر وہ فائل نہ ہوگی تو ہمارے سارے کالے کام کھل جائیں گے کہ یہ کام پرنسپل نہیں کر رہا تھا بلکہ ہم اس سے کروا رہے تھے
اس کی اواز سے وہ کوئی 35 34 سال کا لگ رہا تھا
ان کی باتوں سے اتنا تو کلیئر تھا کہ یہ کام پرنسپل سے کروایا جا رہا ہے
اور اگر وہ اتنا بڑا سکیم کر سکتے ہیں اس یونیورسٹی میں تو ہو سکتا ہے ان کو اس ریڈ کا بھی پہلے سے پتہ ہو اور اس ریڈ کے دوران ہی تمہارے بابا کو پھنسانے کی ان کی کوئی چال ہو جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے ہو
قلب پتہ نہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ اس گیم کا ماسٹر مائنڈ اور تمہارے بابا کو پھنسانے والا دونوں ایک ہی انسان ہیں
تم خود ہی دیکھو نا کہ تمہارے بابا کی ریٹ کے بعد اس یونیورسٹی میں تمام برے کام رک گئے پرنسپل بھی مر گیا
لگتا ہے ان کا مقصد کچھ اور تھا جو پورا ہو گیا اور اس کے بعد اس یونیورسٹی میں کوئی غلط کام نہیں ہوا
کہ تو تم صحیح رہے ہو مجھے بھی یہی لگتا ہے
قلب نے اس کی بات سننے کے بعد کہا
تم ایسا کرو یہ فائل پڑھ لو تب تک مجھے ضروری کام ہے وہ کر کے آتا ہو
اتنا کہنے کے بعد حارث اور ماہی دونوں باہر کی طرف چلے گئے جبک قلب نے وہ فائل پڑنا شروع کر دی
وہ یونیورسٹی کے لیے تیار ہو رہی تھی جب اس کے موبائل پر کال انا شروع ہوئی اس نے حجاب بناتے ہوئے موبائل کی طرف دیکھا
جہا کوئ اننون نمبر بلنک ہو رہا تھا
یہ کون ہے اس کے دماغ میں ایک بار پسروفیسر شاہ کا آیا ضرو پر وہ اب اس کو کیو فون کرے گا
اس نے فون کو اگنور کرتے ہوئے دوبارہ اپنے حجاب کی طرف متوجہ ہوئ
جب کچھ ٹائم بعد اس کا فون دوبارہ بجنے لگا
موبائل کی طرف دیکھا تو وہی نمبر سے دوبارہ کالا رہی تھی اس نے حجاب کرتے ہوئے موبائل اٹھایا یس کرنے کے بعد کان سے لگے گا
السلام علیکم مس قندیل
قندیل نے ابھی فون کو یس کر کے کان سے لگایا ہی تھا جب اسے دوسری طرف سے پروفیسر قلب کی اواز سنائی دی تو اس کا دل زور سے دھڑکا تھا
جبکہ دوسری طرف کلر جس کا کل کا سارا دن عجیب سی بے چینی اور اداس گزرا تھا
اج صبح جب وہ اٹھا تو نماز پڑھنے کے بعد اسے سب سے پہلا یہ خیال ایا کہ مس قندیل اج ائیں گی کہ نہیں
یہی سوچتے ہوئے اس نے قندیل کو فون کیا
یس میں قندیل بات کر رہی ہوں
پر اپ کون
وہ پہچان تو گئی تھی مگر پھر بھی اس نے انجان بنتے ہوئے یہ سوال کیا
میں پروفیسر شاہ بات کر رہا ہوں
پروفیسر شاہ نے ایک روب سے جواب دیا
آج آپ یونی آئے گی مس
قلب نے بے چبینی سے پوچھا
جبکہ دوسری طرف قندیل جس کو کل سر کا فون آنا حیران کر گیا تھا مگر سر کا آج بھی فون آنا اس کو کچھ عجیب لگا تھا
ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی جب اس کو دوسری طرف سے پروفیسر قلب کی آواز آئ
ہیلو مس قندیل
قلب جو اس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا اس کی آواز نہ آنے پر پھر سے بولا
یییس سر
آج آپ یونی آئے گی اس نے اپنا سوال دہرایا
یس سر میں نے انا ہے یونی
گڈ . کلب اس کی بات سننے کے بعد دل ہی دل میں خوش ہوا تھا
ان دونوں کے درمیان تویل خاموشی رہی جب قندیل کو کچھ اور سمجھ نہ ایا تو اس نے پوچھا سر اپ نے مجھے کیا یونی کا پوچھنے کے لیے کی تھی
قلب اس کی بات سننے کے بعد بوکھلا گیا
یس مس میں نے صرف یونی کا پوچھنے کے لیے فون کیا تھا اس کے علاوہ میں اپ کو فون کیوں کروں گا اچھا مجھے کچھ کام ہے میں فون رکھتا ہوں
قلب نے کال ڈس کنیکٹ کر دی
پر قندیل کچھ حیران و پریشان کھڑی تھی کہ اس چھوٹی سی بات کے لیے سر نے مجھے فون کیا عجیب طریقے سے بول رہے تھے خیر اس نے اپنا وہم سمجھ کر کندھے چکاتے ہوئے اپنا حجاب مکمل کرتے کمرے سے نکل گئ