قسط: 4
میں بہت پریشان ہوا کہ فیضان ایسا کیوں بول رہا ہے میں نے اس سے بولا یار سمجھ نہیں آرہی صیح سے بتاؤ وہ ادھر ادہر دیکھنے لگا اور بولا تم نے احمد کی آنکھے نہیں دیکھی میں بولا دیکھی ہے
لیکن وہ بول رہا تھا کہ میں نے لینز لگا رکے ہے وہ بولا نہیں یہ اس کی حقیقت میں ہی اب ایسی ہے کبھی رات کو اس کی آنکھوں میں نا دیکھ لینا اس کی آنکھوں کی چمک ایسی ہے کہ تم اس کے ساتھ چلنے لگو گے میں بولا یار رات ایسے ہوا تھا فیضان بولا اب نا دیکھ لینا
اتنے میں احمد آیا اور مجھے آواز دینے لگا فیضان تو آواز سن کر ڈر گیا میں باہر گیا اور احمد کو دیکھنے لگا اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی وہ مجھے اپنے ساتھ لے کرجانا چاہتا تھا لیکن اس نے فیضان کو دیکھ لیا
اور فیضان کے پاس جانے لگا میں نے اس کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن احمد تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور فیضان کو اپنے پاس بلا رہا تھا میں نے فیضان کو کہا باہر ا جاؤ ٹینشن نہ لو میں ہوں نہ تمہارے ساتھ فیضان ڈرتا ڈرتا باہر ایا
اور احمد سے ہاتھ ملانے لگا احمد نے تو فیضان کو گلے سے لگا لیا اور اتنی زور سے دبایا کہ فیضان کی چیخیں نکلنے لگی احمد بار بار اس کے گردن کو لمبی سانس لے کر سونگھتا جیسے وہ کسی نشے کو سونگ رہا ہو
میں نے احمد سے پوچھا یہ تم کیا سوگنتے رہتے ہو یہ کون سی عادت تمہارے اندر آچکی ہے وہ بولا ارے یار کچھ نہیں بس ویسے ہی اس کے جسم سے بہت اچھی خوشبو اتی ہے مجھے میں نے اس کو احمد سے جدا کیا اور اپنے پاس کھڑا کر لیا اب میں احمد کو گھورنے لگا احمد کی انکھوں میں ایک عجیب سی چمک جو مجھے کسی خطرے کی گھنٹی لگ رہی تھی
اب مجھے بھی احمد سے تھوڑا خوف انے لگا اتنے میں احمد ادھر ادھر دیکھنے لگا شاید اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہو اس نے کہا ارسلان اگیا میں دیکھنے لگا لیکن وہاں کوئی نہ تھا اور ساتھ ہی تھوڑی دیر بعد ارسلان اتا نظر ایا میں پریشان ہوا کہ اس کو کیسے پتہ چل گیا کہ ارسلان آرہاہے
فیضان نے مجھے اشارہ کیا کہ اندر چلو یہاں خطرہ ہے میں نے کہا کہاں جانا ہے اپ لوگوں نے وہ بولتا ہے کہیں نہیں اؤ کھانا کھانے چلتے ہیں اور فیضان کو بھی ساتھ لے کے جانا ہے فیضان نے بولا میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گا
میں اپنے گھر جا رہا ہوں میں نے بولا فیضان تو میرے پاس رک ہم کھانا ساتھ کھائیں گے احمد بولا ہمیں نہیں کھانے پر بلاؤ گے میں نے بولا کیوں نہیں یار میں گھر بول لیتا ہوں ہم سب اج اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھائیں گے
اتنی کہنے کی دیر تھی کہ ارسلان ایا اور مجھ سے ملنے لگا ارسلان نے بھی وہی حرکت کی گردن کو سونگنے لگا پھر فیضان کی گردن کو سونگنے لگا اور فیضان کو بولنے لگا کہ یار تجھ سے مل کر مجھے بہت اچھا لگتا ہے اج رات کو تم نے میرے پاس انا ہے تمہاری دعوت ہے فیضان ڈرسا گیا تھا
کیونکہ فیضان کو پتہ تھا کہ یہ دونوں خونی حویلی میں رہتے ہیں فیضان ابھی کچھ ہی دور جانے لگا کہ ارسلان نے کہا یار میں چلتا ہوں مجھے کام یاد اگیا احمد جو کہ ارسلان کو گور رہا تھا اس کی انکھوں میں ایک عجیب سی چمک اور وحشت جیسی ہنسی اس کے چہرے پر ائی میں یہ دیکھ کر چپ نہ رہا اور بولا کہ ابھی تم کہاں جا رہے ہو
رکو تو صحیح اور ارسلان فیضان کے پیچھے چلنے لگا اتنے میں احمد بھی جلا گیا میں حیران ہوا کہ یار یہ دونوں کہاں چلے گئے اور فیضان کے پیچھے ہی کیوں گئے ہیں میں نے میں نے ارادہ کیا کہ ان کا پیچھا کرتا ہوں
اور چھپ کر دیکھتا ہوں کہ کیا معاملہ ہے میں ان سے چند قدم دور رہ کر چھپاتا ان کے پیچھے چلنے لگا جیسے ہی فیضان کھیتوں کے قریب پہنچا ارسلان نے اس کو جھپٹ کر پکڑ لیا فیضان نے چیخ ماری مجھے چیخ کی اواز سنائی دی اور میرا دل زور سے دھڑکنے لگا میں نہ چا کر بھی فیضان کو نہ بچا سکا میرے ذہن میں خیال ایا کہ شاید کوئی مذاق کیا ہوگا جس سے وہ ڈر گیا ہوگا ویسے ابھی فیضان کافی ڈرا ہوا لگ رہا تھا میں پھر بھی ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا
اور جب میں کھیتوں کے قریب پہنچا تو میری انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اور میرا سانس جیسے حالق میں ہی رک گیا ہو اور میرے جسم میں تو جان ہی نکل گئی میں نے دیکھا کہ ارسلان نے فیضان کی گردن کے اوپر اپنا منہ رکھا ہوا ہے اور احمد اس کا برابر ساتھ دے رہا تھا
مجھے گڑگڑانے کی اواز ائی جو کسی جنگلی جانور سے کم نہ تھی تھوڑی ہی دیر بعد ارسلان کا منہ اوپر ہوا تو میں یہ دیکھ کر ڈر گیا کہ یہ وہی رات والا چہرہ ہے اس کے دانتوں پہ خون لگا ہوا تھا میں نے دل میں سوچا بیچارہ فیضان اور میں نے دوڑنے کی کوشش کی تو ٹھوکر کھا کر گر گیا
احمد نے مجھے محسوس کر لیا تھا میں کسی بھی طرح بچتا بچاتا دوڑتا اپنے گھر تک پہنچا اور گھر کے اندر جا کر میں نے لمبی سانس لی میری خالہ نے مجھے پوچھا کیا ہوا میں ڈرا ہوا تھا اور میرے منہ سے اواز تک نہیں نکل رہی تھی