قسط 3
آج پھر سے وہ اپنے کمرے میں قید تھی۔شہیر گھر میں موجود تھا اور وہ ہرگز بھی اُس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔اُسے اپنی کل رات کی ہمدردی پر بھی غصّہ آرہا تھا۔کے اُس دشمنِ سکون کی فکر میں اُس نے اپنا مذاق بنوا لیا تھا۔۔۔
اپنا آپ اُس کی بیگانگی کے بعد کچھ اور حقیر سا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
ناز اور افرا اُسے ناشتے پر بلانے آئیں تو اُس نے سر درد کا بہانا کر دیا ۔ مگر جب رئیسہ بیگم کا بلاوا آیا تب وہ بے بس ہو گئی۔۔۔شہیر کا غصّہ وہ اُس کے گھروالوں پر نہیں نکال سکتی تھی۔۔۔خاص کر تب جب اُن سب نے اپنی محبت اور خلوص اُس پر اُمید سے زیادہ لٹائی تھی۔۔۔
سست روی سے چلتی ناشتے کی ٹیبل پر آگئی تھی۔۔ بلکل سادے سے حلیے میں تاکے اپنے عین مقابل بیٹھے شخص پر اپنی بے نیازی ثابت کر سکے۔۔۔۔۔اُس کی کوئی بھی غلطی اُسے پھر خود کی نظر میں شرمندہ نا کردے۔۔۔۔
جب کے وہ تو خود اس قدر بے پرواہ بے نیاز تھا کے ناشتہ کرنے کے دوران ایک نظر اُس کی جانب دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ ۔پوری توجہ سے اپنے ڈیڈ کی باتوں میں مشغول تھا۔۔۔ جو ناز اور حمزہ کے رشتے۔۔۔ منگنی اور شادی کی ڈیٹ کے مطلق باتیں کر رہے تھے اور وہ محض ہمم ہاں میں جواب دے رہا تھا۔۔۔
وہ کڑے دل سے وہاں بیٹھی بیزار طبیعت سے لقمے لیتی رہی۔۔۔۔
رئیسہ بیگم اُس کے سادے مگر سوگوار چہرے کو بغور دیکھتی اپنے بیٹے کی لاپرواہی اور بے حسی پر افسوس کرتی ناشتہ درمیان میں ہی چھوڑ کر وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔شہیر نے اُن کی خفگی کو محسوس کرکے ایک گہری سانس خارج کی۔نور کی جانب دھیان گیا مگر نظر اُس کے چمچ سے کھیلتے ہاتھوں سے ہی واپس لوٹ آئیں۔۔۔۔اور وہ بھی ایکسکیوز کرتا اپنی چیئر چھوڑ کر اٹھ گیا۔۔۔
“اگر تمہارے نزدیک اپنی ماں کی اتنی وقعت ہوتی تو تم میرے کیے گئے فیصلے کو اتنی بری طرح جھٹلا نہیں دیتے۔۔۔۔”
اُس نے رئیسہ بیگم کو منانے کی کوشش کی تو اُنہوں نے اُس کی جانب سے منہ پھیر لیا۔۔۔۔مگر اپنا ہاتھ نہیں چھڑوایا۔۔۔۔وہ سلگتی نگاہوں سے اُنہیں دیکھتا رہا۔۔۔۔
یوں حقیقت سے بھاگنے کی بجائے ایک کوشش کرتے اس رشتے کو نبھانے کی
۔۔۔۔کم سے کم یہ سوچ کر کہ اُس بے قصور لڑکی کو تمہاری ماں اپنے دم پر اس گھر میں لائی تھی۔۔۔
جو بھروسہ ۔۔۔جو مان اُس کے ماں باپ نے اپنی بیٹی کو وداع کرتے ہوئے مجھے سونپا تھا۔ ۔اُسے میرے ہی بیٹے نے اتنی بری طرح توڑ دیا کے مجھے اُن سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔
وہ نم لہجے میں اُس سے شکوے کر رہیں تھی اور وہ محض خاموش تھا۔۔۔۔
اس سے تو اچھا ہوتا کے تم شادی کے لیے حامی ہی نا بھرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید میں کبھی تھک ہار کر صبر کرلیتی۔۔۔۔۔۔۔مگر اب تو اُس لڑکی کی مجرم بن کر اپنے کیے پر پچھتانے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔۔۔۔۔
اُنہوں نے شہیر کی جانب دیکھ کر خفگی سے کہا ۔۔۔۔و چند لمحے اُن کی بھیگی بے آس۔۔۔۔۔ شکوے کرتی آنکھوں کو دیکھتا رہا پھر آہستہ سے سر اُن کے کندھے پر رکھ دیا۔۔۔۔اور مدھم لہجے میں اُنہیں پکارا
مام۔۔۔۔۔۔
اُس ایک پکار میں کتنا درد۔۔ کتنی آہیں۔۔۔۔ کتنی بے بسی۔۔۔کتنی تڑپ اور کتنی تھکان تھی ماں کی سماعتوں نے بخوبی محسوس کیا اور آنسُو تواتر سے بہتے چلے گئے۔۔۔۔ناراضگی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔۔۔
میں جانتی ہوں بیٹا ۔۔۔۔تمہارے لیے آسان نہیں ہے۔۔۔تمہیں بہُت گہری ضرب دی ہے عائزہ کی بیوفائی نے ۔۔۔۔لیکِن ضروری تو نہیں کے زندگی کا ہر دن ایک سا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ضروری تو نہیں کے گزرے کل پر ماتم کرتے ہوئے حال میں جینا چھوڑ دیا جائے۔۔۔ ماضی سے نکلنے کی کوشش تو کر سکتے ہو نا۔۔۔۔۔۔۔اُس جھوٹ سے نکل کر سچ کو اپنانے کی کوشش تو کر سکتے ہو نا۔۔۔۔۔
میں کہاں کہہ رہی ہوں کہ آج ہی سب نارمل کردو۔۔۔مگر نور کی طرف قدم تو بڑھا سکتے ہو نا۔۔۔۔۔کم سے کم اپنی ماں کے لیے۔۔۔۔۔
اُنہوں نے اُس کے گھنے بالوں میں اُنگلیاں چلاتے ہوئے اُس کے غموں کو اپنے پوروں میں جذب کرلینے کی کوشش کی۔۔۔اُس نے سر پیچھے کرکے سرخ پُر ضبط نظروں سے اُن کی جانب دیکھا اور پھر بنا کچھ کہے وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا۔۔۔۔




سب کے صلاح مشورے سے ناز اور حمزہ کی شادی ایک مہینے بعد اور منگنی تین دِن بعد طے پائی تھی ۔۔۔ناز کے چہرے پر فطری حیا کے رنگ چھائے ہوئے تھے۔۔۔۔سب ہی خوش تھے۔۔۔گھر میں خوشنما ماحول تھا۔۔رونق سی چھائی تھی۔۔۔
مگر نور کے دل میں عجیب سی بے کلی تھی۔۔۔۔کہ یقینًا اب وہ شخص اُس گھر میں ہی رہے گا جس کی موجودگی نور کے لیے باعثِ مشکل تھی۔۔۔۔۔۔۔اُسے فکر تھی کے شہیر احمد کے اُس گھر میں ہوتے ہوئے اُس کے روز و شب کیسے گزرے گے۔۔۔۔عزت نفس کس حد تک مجروح ہوں گی۔۔۔
تبھی وہ ایک فیصلے پر پہنچ کر رئیسہ بیگم کے پاس آئی اور اُن سے اپنے گھر واپس جانے کی اجازت طلب کی۔۔۔۔
اُس کے سوال پر وہ چند لمحے ساکت رہ گئیں۔۔۔۔
بیٹا شہیر کو تھوڑا وقت دو وہ۔۔۔۔۔۔
لفظ ٹٹولتے ہوئے اپنے بیٹے کی وکالت کرنی چاہی مگر نور کی بجھی آنکھوں میں اُداسی کے گہرے سائے دیکھ بات ادھُوری چھوڑ گئیں۔۔۔۔۔
آپ نے کہا تھا ۔۔۔۔ آپ میرا ساتھ دیں گی۔۔۔
نور نے نظریں جھکائے اُنہیں یاد دلایا۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔اگر تم ایسا ہی چاہتی ہو تو میں اپنے قول سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔۔۔لیکن کم سے کم ناز کی شادی تک تو رک جاؤ۔۔۔۔
انہوں نے بوجھل دل سے حامی بھر کر۔۔۔اس کے نازک ہاتھ پر ہاتھ دھرتے ہوئے پر امید لہجے میں التجا کی۔۔۔ایسے کے اُس کے اندر انکار کا حوصلا نہیں بچا۔۔۔۔۔۔مگر دل اس آزمائش پر سینے میں زوروں سے مچل رہا تھا۔۔لبوں کی خاموشی پر پُر اسرار احتجاج کر رہا تھا۔۔۔۔
@@@@
شہیر مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔
کیوں پریشان کر رہے ہو۔۔۔۔
وہ اُسے بمشکل پیچھے کرکے جھنجھلائ سی بولی جو اپنی سوز زدہ قربت سے اُس کی جان ہلکان کر رہا تھا جب کہ وہ باہر جانے کے لیے تیار ہوئی تھی اور بس شہیر کو اطلاع دینے کے لیے پکار کے متوجہ کیا تھا ۔۔۔ مگر اُس کے سرخ لپ سٹک سے سجے ہونٹ شہیر کی نیت بگاڑ چکے تھے۔۔۔۔اور وہ اُسے اپنی قید سے آزاد کرنے سی انکاری تھا۔۔۔
پریشان تو تم مجھے کر رہی ہو ڈیئر وائف ۔۔۔۔۔مجھے چھوڑ کر شاپنگ کے پیچھے وقت برباد کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔دیکھو نا موسم کتنا سہانا ہے۔۔۔۔کیوں نہ اسے اور خوبصورت بنایا جائے۔۔۔۔
وہ بہکی بہکی سرگوشی کرتا بولتی نگاہوں سے اُس کے چہرے کو چھوتے ہوئے۔۔۔۔رخسار پر اُنگلیاں پھیرنے لگا۔۔۔عائزہ نے اُسے گھورتے ہوئے اُس کا ہاتھ جھٹکا اور دور ہوئی۔ ۔
تمہیں تو رومینس کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔۔۔۔مگر میں اپنا بنا بنایا پلان کینسل نہیں کرنے والی۔۔۔۔میری فرنڈز میرا ویٹ کر رہیں ہیں۔۔۔۔۔اور میں جا رہی ہوں۔۔۔۔
وہ اُسے دور کرکے غصے سے بولتی پرس اٹھا کے دروازے کی طرف بڑھی مگر وہ اُس کی کلائی تھام کر اگلے قدم پر ہی روک گیا۔۔۔
اگر روک کر دکھا دوں تو۔۔۔۔۔۔
عائزہ کے پلٹنے پر۔۔والہانہ نظریں اُس کے چہرے پر ٹکائے متبسم لہجے میں کہا۔۔۔
نا ممکن۔۔۔۔۔۔
عائزہ نے ابرو اٹھا کر جتایا اور اپنا ہاتھ اُس کی گرفت سے چھڑا کر منہ موڑ گئی۔۔۔
وہ تیزی سے آگے بڑھ کر ایک ہی جست میں اُسے واپس کھینچ کر بیڈ پر دھکیلتے ہوئے اُس پر جھکا۔۔۔۔عائزہ حیرت سے اُس کا چہرہ تکتی رہ گئی۔۔۔
Dont challenge me sweetheart ۔۔۔۔۔
وہ اُس کی حالت سے محظوظ ہوتا دھیمی سے مسکراہٹ لبوں پر سجائے بولا۔۔۔
شہیر۔۔۔۔۔کیا کر رہے ہو تم۔۔۔۔۔
عائزہ نے احتجاجاً پکارا اور اُسے اپنے سے پیچھے کرنا چاہا مگر سب بے اثر رہا۔۔۔
تمہیں احساس دلانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں تمہاری دوری سے کتنا ڈرتا ہوں ۔۔۔پھر چاہے وہ چند پلوں کی ہی کیوں نہ۔۔۔مجھے کتنا مضطرب کر دیتی ہے۔۔۔۔
وہ گمبھیر لہجے میں بولا۔۔۔ آنکھیں مسرور تھیں۔۔۔
کبھی کبھی بلکل نائنٹیز کے ہیرو بن جاتے ہو تم۔۔۔۔۔۔
عائزہ نے دانت پیس کر اُسے پیچھے دھکیلنا چاہا۔۔۔وہ اُس کی دونوں کلائیوں کو تھام کر اُن کا احتجاج رد کر گیا اور اُس کے گال پر لبوں کا لمس چھوڑتے ہوئے گردن میں چہرہ چھپایا۔۔۔
۔۔۔۔تمہاری چاہت دھڑکنوں کا جنون اور تمہاری قربت سانسوں کا نشہ بن گئی ہے۔۔۔
میری حالت تم سے دور ہو کر ویسی ہی ہوجاتی ہے جیسی ایک ڈرگ اڈیکٹ کی ڈوز نا ملنے پر ہوتی ہے۔۔۔اتنی ہی بے چینی۔۔۔۔اتنی ہی تڑپ۔۔۔۔ویسی ہی طلب۔۔۔۔
مدھم مدھم سرگوشیوں کی دھن نے کمرے میں سر بکھیر دیے۔۔۔۔۔وہ بے خود سا عائزہ کے وجود میں گم ہونے لگا کہ اُس کی سحر زدہ قربت نے پل کو عائزہ کے حواس بھی سلب کر دیۓ مگر وہ فوراً ہی سنبھلی اور اُسے پیچھے کیا۔۔۔
کبھی کبھی تم بلکل عجیب ہوجاتے ہو۔۔۔۔
وہ اُس کے بے تاثر چہرے کو دیکھتی ۔۔چڑے چڑے سے انداز میں بولی تو وہ ہولے سے مسکرا کر سائیڈ میں ہوا مگر اُس سے دور نہیں۔۔۔۔کہنی کے بل اور ہتھیلی پر سر رکھے سایہ بن کر اُس پر جھکا رہا۔۔۔۔شادی۔۔ کو چھ مہینے گزر چکے تھے مگر شہیر کا پاگل پن پہلے سے بھی زیادہ بڑھنے لگا تھا ۔ ۔۔۔جو عائزہ کو خود میں ہر وقت قید کرنے کی کوشش کرتا تھا اور عائزہ کو آزادی پسند تھی۔۔۔
کبھی کبھی مجھے بھی یہ احساس پریشان کرتا ہے کہ تمہاری محبت میں لا علاج مریض ہوتا چلا جا رہا ہوں۔۔۔اور یقین کرو زندگی بہت کوشش کی اپنی دیوانگی پر قابو کرنے کی مگر۔۔۔۔۔
وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتا مدہوش کن لہجے میں بولتا اپنی بات ادھُوری چھوڑ کر اُس کی نازک کلائی کو لبوں سے لگا گیا۔۔۔۔
مگر ہر کوشش ناکام ہوئی۔۔۔۔۔
ہر عمل بے عمل ٹھہرا۔۔۔۔
ہر ضبط بے سود رہا۔۔۔۔
اور حدیں ٹوٹتی چلی گئیں۔۔۔۔۔
اُس کا جذبا توں سے بوجھل لہجہ بے جان شے کو بھی پگھلانے کے حدت رکھتا تھا مگر جانے عائزہ کس قسم کی غلط فہمیوں میں یقین رکھتی تھی کے اُسے نا محبت کے وجود پر یقین تھا نا شہیر کی چاہت پر۔۔۔۔نا اُس کے اظہار و اقرار پر۔۔۔۔۔
وہ اُس کی بے خودی کا فائدہ اٹھا کا فوراً اُس سے دور ہوئی۔۔۔۔۔۔
شروع شروع میں سب ایسے ہی کہتے ہیں۔۔۔۔کچھ سال بعد تم بھی اوروں کی طرح اس محبت وحبت سے اُکتا کر لائن پر آجاؤ گے۔۔۔۔بائے دے وے تم ہار گئے۔۔۔۔۔مجھے نہیں روک پاۓ۔۔۔۔دیکھ لو۔۔۔۔۔۔
اُس نے بیڈ سے اتر کر لا پرواہی سے کہتے ہوئے ہنس کر اُسے چڑایا اور روم سے فرار ہو گئی۔۔۔
وہ چند پل بند دروازے کو دیکھتا رہ گیا اور پھر مسکرا کر سر بیڈ پر گرا دیا۔۔۔
“تُم ہار گئے۔۔۔ مجھے نہیں روک پاۓ”
سالوں گزر گئے تھے ۔۔۔مگر اُن لفظوں کی بازگشت اکثر اپنے اطراف سنائی دیتی تھی۔۔ شاید وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ وہ عارضی دوری بھی شہیر کی دین تھی۔۔۔۔ اور وہ مستقل فاصلے بھی شہیر کی مرضی۔۔۔۔۔۔
وہ کتنی ہی دیر تک ساکت اپنے روم کے دروازے کے آگے کھڑا رہا۔۔۔۔۔۔
دل تو ہرگز راضی نہیں تھا مگر ماں کی آنکھوں میں پنپتی ڈھیروں فکر اور التجائیں۔۔۔اپنے ہی آپ پر جبر کو مجبور کر رہی تھی ۔۔۔
وہ جانتا تھا کے اُس کی ماں اتنی بے خبر نہیں کے وہ آج کی رات پھر اسٹڈی میں گزار کر اُنہیں دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔نا اُسے ایک دفعہ پھر اُن کے سامنے شرمندہ ہونا منظور تھا۔۔۔
مگر اندر جانے کی ہمت نا پید تھی۔وہ بھی اپنے ہی روم میں۔۔۔
کہنے کو گزرے چار سال سے ہی یہ اذیت اُس کے وجود کا حصہ تھی۔۔۔مگر جانے کیوں نور سے نکاح کے بعد درد دو چند ہو گیا تھا ۔۔۔۔پرانی یادیں پرانے زخموں کی مانند تازہ ہو کر تکلیف دے رہیں تھیں۔۔۔
شاید ایک طرفہ ہی صحیح۔۔۔۔۔ناکام ہی صحیح۔۔۔۔۔شکست زدہ ہی صحیح ۔۔۔مگر محبت کو اپنے وجود پر ناز تھا ۔۔۔
♪♪♪♪
موسم بدل رہا تھا۔۔۔بارش کی آمد فضاؤں پر اثر انداز تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔۔۔راتیں سرد ہونے لگیں تھیں۔۔
وہ چینج کرکے سادہ سا سیاہ سلوار سوٹ زیب تن کیے سونے کی تیاری میں تھی۔۔۔لائٹ بند کرکے مدھم سی روشنی کیے۔۔۔۔دوپٹہ اتار کر سرہانے رکھے۔۔۔بالوں کو ڈھیلی سی چوٹی میں گتھائے۔۔۔۔ سر تکیے پر رکھنے لگی تھی کہ دروازہ کھلنے پر رک گئی۔۔۔۔۔
اور اُس شخص کو دیکھ کر نور کی نظریں اُسی زاویے پر ساکت و جامد رہ گئیں جس کی اُس کمرے میں آمد بے یقینی تھی۔۔
اُس کی وہاں موجودگی نور کو اپنی نظروں کا وہم لگی۔۔۔۔ مگر کیوں۔۔۔۔۔وہم بھی کیوں گمان بھی کیوں۔۔۔۔۔اُسے ایسا خیال بھی کیوں آتا۔۔۔آخر اس شخص کو اتنی فوقیت کیوں دے گی کہ وہ اُس کی سوچ میں بھی قدم رکھ سکے۔۔۔۔۔اور پھر شہیر کی لا تعلق نظریں۔۔۔۔سرد تاثرات۔۔۔۔بیگانہ پن اُس پر واضح کر گیا کے یہ کوئی گمان نہیں حقیقت تھی۔۔۔۔۔
اور وہ اُس سے نظریں ہٹا گئی۔۔۔بے چینی سے پہلو بدلا۔۔۔
شش و پنج میں گھری انگلیاں بے دردی سے مروڑتی سوچنے لگی کے آخر وہ یہاں کس وجہ سے آیا ہوگا۔۔۔۔
شاید اپنی کوئی چیز لینے۔۔۔۔
اس سوچ پر آکر وہ ٹہر گئی۔۔۔
وہ اُس کے وجود کو یکسر نظر انداز کیے صوفے پر جا بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔اور کف کے بٹن کھولتے ہوئے آستین اوپر فولڈ کرنے میں مگن تھا۔۔۔
دو نفوس کی موجودگی کے باوجود کمرے میں بلکل خاموشی تھی۔۔۔۔اور اُس خاموشی میں بے انتہا وحشت ۔۔۔۔۔
اُس کے ساتھ ایک فضا میں سانس لینا نور کیلئے بے حد جان لیوا تھا۔۔۔۔ہر سانس کے ساتھ جیسے بے حرمتی کا زہر سینے میں اترتا جا رہا تھا اور جب اُس کے برداشت کے باہر ہوا تو وہ فوراً اٹھ کر واشروم میں گھس گئی۔۔۔ اُس کے روم سے باہر نکلنے تک کے لیے اُس منظر سے خود کو غائب کرنا چاہا۔۔۔
شہیر نے ایک نظر اُس جانب اٹھائی جہاں وہ کچھ دیر قبل بیٹھی تھی اب بس وہاں اُس کا سیاہ دوپٹہ پڑا تھا۔۔۔۔
وہ گہری سانس بھر کر صوفے سے سر ٹکا گیا۔۔اور آنکھیں موند لیں۔۔
پانچ منٹ۔۔۔ دس منٹ ۔۔۔ وقت دھیرے دھیرے آگے سرکتا گیا۔۔۔۔وہ اندر رکی رہی ۔۔۔جمائیاں روکتے ہوئے اُس کے واپس جانے کا انتظار کرتی رہی اور جب لگا کے اب تک یقیناً جا چکا ہوگا۔۔۔دھیرے سے دروازہ کھولا۔۔۔۔
وہ صوفے پر خود کو ایڈجسٹ کیے آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا تھا۔۔۔۔جس سے نور کو اندازہ ہوگیا کہ اُس کا جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔۔اور اس کی وجہ بھی کافی حد تک سمجھ آگئی تھی۔۔۔
دروازے کے ہینڈل پر اُس کی گرفت سخت ہوئی تھی۔۔۔۔نظروں میں ناگواری بھر گئی تھی۔۔۔۔
وہ جو اُس کی غیر موجودگی میں بھی ٹھکرائے جانے کی اذیت سے پل پل مرتی جا رہی تھی ۔۔۔اُس شخص کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رہنے کے خیال سے سلگ اٹھی ۔۔۔
پیر پٹھکتے ہوئے چل کر بیڈ تک آئی۔۔۔اپنا دوپٹہ۔۔۔اور کشن کھینچ کر سینے میں بھینچے اسٹڈی روم کے دروازے کی اور بڑھی۔۔۔۔
ایک منٹ۔۔۔۔۔
ابھی ہاتھ ہینڈل پر ہی تھا کے شہیر نے اُسے آہستہ سے پکارا۔۔۔۔اور نور کی سماعتیں پوری شدت سے اُس پکار پر متوجہ ہوئی تھیں۔۔۔۔
کوئی جذبہ نہیں کوئی احساس نہیں پھر بھی اُس کا رواں رواں دھڑک اٹھا تھا۔۔۔۔
شاید اسلئے کہ وہ اذیت بن کر ہی سہی ہر وقت ذہن پر سوار تھا ۔۔۔۔۔۔
يا شاید اُن دو لفظوں کے تعلق کا اثر تھا۔۔۔۔جن کی ڈور اُنہیں باندھے ہوئے تھی۔۔۔۔
مگر اُس لمحے اور اُس احساس نے نور کو خوفزدہ کیا۔۔ اُس نے شہیر کی جانب نہیں دیکھا کہ کہیں وہ اُسے پڑھ نا لے۔۔۔۔
کیا ہم ایک منٹ بات کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ اٹھ بیٹھا۔۔۔۔خاموش کھڑی نور کو ایک نظر دیکھ کر رسانیت سے بولا۔۔۔نور نے جواب نہیں دیا مگر ہاتھ ہینڈل سے ہٹا لیا۔۔۔
آۓ نو۔۔۔۔میری جانب سے آپ کو بہُت شکایتیں ملی ہے۔۔۔۔پھر بھی مجھے آپ سے ایک فیور چاہئے۔۔۔۔
جواب نہ پا کر بھی وہ اپنے مخصوص بھاری گمبھیر لہجے میں بولا۔۔۔نور کشن کو خود میں بھینچے کھڑی۔۔۔ اُس کی آواز کی جانب متوجہ تھی۔۔۔
کیا ہم اس تعلق کو کمرے کے باہر نارمل ظاہر کر سکتے ہے۔۔۔
اُس نے بلاخر مدعا بیان کیا حالانکہ اُس کا انداز بے بس تھا۔۔۔۔۔مگر نور کو صرف اُس ک بے حسی سنائی دی۔۔۔۔۔اُس کی خودغرضی پر اس قدر نفرت محسوس ہوئی کے پل بھر پہلے محسوس والا ہر مثبت تاثر مٹ گیا۔۔۔۔
وہ اس کے خواب اُس کی خواہشیں بے دردی سے توڑ کر اُسے سب کی سامنے مسکرانے کو کہہ رہا تھا۔۔۔۔
مام میرے لیے پریشان ہے اور میں اُن کے لیے بہت فکرمند ہوں۔۔۔۔۔۔بس اتنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔۔
اور آپکو کیوں لگتا ہے میں آپ کی بات مانو گی۔۔۔۔
وہ اپنی بات کی دلیل دے رہا تھا کے وہ بیچ میں بول پڑی۔۔۔۔ایکدم سے رخ اُس کی جانب کیے کہ وہ چونکا ۔۔ اُس کی ناگواری کو شدت سے محسوس کرکے نظریں پھیر لیں۔۔۔
کیوں کے مجھے اندازہ ہے آپکے نزدیک میرے گھر والوں کی خاصی اہمیت ہے۔۔۔
نظروں کا رخ نور سے کچھ فاصلے پر رکھےٹراوزر کی جیبوں میں ہاتھ پھنسائے اُسی گمبھرتا سے بولا۔۔۔
اگر یہ سچ بھی ہے تب بھی میں آپکے چاہنے پر ایسا کیوں کروں ۔۔۔
نور نے دوبدو جواب دیا ۔۔۔لہجے میں چبھن ہی چبھن تھی۔۔۔ آگ ہی آگ تھی۔۔۔۔جس کی پہنچ شہیر تک بھی گئی۔۔۔اُس نے نور کی جانب دیکھا
آپکی ناراضگی۔۔۔۔۔۔
شاید اُسے اپنی خودغرضی کا احساس تھا تبھی لہجہ کچھ نادم ہوا تھا مگر نور۔۔۔
ناراضگی۔۔۔۔۔
پیشانی پر بل ڈالے حیرت اور ناگواری سے اُس کے الفاظ دہرائے تو وہ لب بھینچ گیا۔۔۔۔
ناراضگی کے معاملے تعلقات کے دائرے میں ہوتے ہیں۔۔۔اور میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔۔
وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی سختی سے بولی۔۔۔۔۔آگ سا انداز تھا۔۔۔۔جتاتے الفاظ تھے اور بھڑاس ہی بھڑاس تھی۔۔۔۔۔۔وہ اُسے سنا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔پہلی دفعہ شہیر نے بہت غور و سنجیدگی سے اُسے دیکھا کہ وہ اُس کی چہرہ پڑھتی نگاہوں کے اثر سے نظریں جھکا دینے پر مجبور ہو گئی۔۔
مگر اُس لمحے بھی گھبراہٹ یا خوف کا تاثر نا اُبھرنے دیا۔۔۔۔
تعلق تو خیر ہے۔۔۔۔۔
اُس نے بھی اطمینان سے اُسے باور کروا کر بدلا لیا۔۔۔۔بے ارادہ۔۔۔ بس حساب برابر کرنے کو مگر فوراً ہی اپنے لفظوں کا احساس کرکے سنبھل گیا۔۔۔
لیکِن آپ کی بات بھی اپنی جگہ درست ہے۔۔۔۔۔ ناراضگی نا سہی غصّہ تو کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ غصے والے معاملے تو اجنبیت کے دائرے میں ممکن ہے۔۔۔۔۔
لیکِن وہ اُسے جواب دینے سے بعض نا رہا۔۔۔ اُسی کے انداز میں اُسے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔ ایسا کے اُس کی زبان تالو سے لگ گئی۔۔۔۔۔۔اُسے ڈھونڈھنے سے بھی کوئی لفظ نہیں ملے اور اُس کی نظریں مذاق اڑاتی محسوس ہوئی تو وہ منہ پھیر گئی۔۔۔
آپ پوائنٹ کے بات کریں پلیز۔۔۔ مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔۔
رخ بدل کر جھنجھلائے سے انداز میں بولی تو شہیر نے اُس کے کشن میں دھنستے نازک ہاتھ کو دیکھا جو اُس کے ضبط کو ظاہر کر رہے تھے۔۔۔۔
آپ یہاں سو سکتی ہے آرام سے میری طرف سے آپکو کوئی شکائت نہیں ہوگی۔۔۔۔مجھے جو کہنا تھا کہہ دیا۔۔۔
وہ اُس کا رویہ دیکھ کر اپنی بات دہرانے کی بجائے آہستہ سے بول کر چینجینگ روم میں چلا گیا۔۔۔۔نور نے غصے اور ناگواری سے بند دروازے کو دیکھا اور پھر اسٹڈی میں روم میں چلی گئی۔۔۔۔
اُس کی بات کو خاطر میں نہ لانے کا عزم کیے ۔۔