قسط 4
اندر اور باہر کا موسم ایک سا ہوگیا تھا۔۔۔
ابر آلود دل اور رک رک کر برستا پانی۔۔۔۔
دونوں کا سامنا نہ ہونے کے برابر تھا۔۔۔۔
اور اس میں دونوں کی ہی کوشش حتمی تھی۔۔۔
شہیر دیر رات کو روم میں آتا اور تب تک نور وہاں سے جا چکی ہوتی۔۔۔۔۔رات اسٹڈی روم میں گزرتی۔ ۔۔۔اور صبح اُس کے جاگنے سے پہلے ہی تیار ہو کر روم سے نکل جاتی۔۔۔۔
دِن میں کبھی ایک موقع پر دونوں ساتھ آجاتے تو دونوں ہی فرار کی راہیں تلاشنے لگ جاتے۔۔۔
گھر کے لوگوں سے اُن دونوں کو رنجشیں مخفی نہیں تھیں مگر سب خاموش تھے ۔۔۔اُنہیں وقت دے رہے تھے۔۔۔
جب کے نور کے لیے اُس گھر میں ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور وہ دِن گن رہی تھی کہ کب اُسے اس گھٹن سے نجات ملے۔۔۔۔۔کانوں میں ہر وقت ایک ہی صدا گونجتی رہتی تھی۔۔”اُس لڑکی کی میری زندگی میں کوئی حیثیت نہیں ہے”
اور یہ صدا آہستہ آہستہ اُس کے وجود کو نگلتی جا رہی تھی۔۔۔
دِن سرد مہر اور راتیں پر نم گزرتی گئی۔۔۔
اور ناز کی منگنی کا دِن آپہنچا۔۔۔۔
وہ آئینے کے سامنے بیٹھی اپنے عکس کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔اپنی خوبصورتی منوانے کے تمام اختیارات خدا نے دیے تھے۔۔مگر وہ خود میں کوئی کمی کھوج رہی تھی۔۔۔کوئی نقص تلاش رہی تھی۔۔
۔۔۔ افرا پاس کھڑی اُسے تیار ہونے میں مدد کر رہی تھی اور ساتھ ہی ڈھیروں باتیں بھی کرتی جا رہی۔۔۔
مگر اُن باتوں کی بجائے وہ اپنے آپ میں میں محو تھی۔۔۔کچھ ڈھونڈھ رہی تھی۔۔۔۔شاید کوئی لکیر کوئی نشان جو قسمت بتاتا ہو اور اُسے بھی بتا دے کے زندگی اب کہاں لیجانے والی ہے۔۔۔۔
مہندی کا رنگ تو بہُت گہرا چڑھا ہے” بھابھی۔۔۔لگتا ہے کوئی آپ سے بے حد محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔”
افرا نے اُس کی گوری کلائی میں گرے کلر کر کئیں ساری چوڑیاں ڈالتے ہوئے مسکرا کر کہا تو اس نے کھوئی کھوئی نظروں سے اپنی ہتھیلی کو دیکھا ۔۔۔۔۔جہاں ایک چاند بنا ہوا تھا۔۔۔اور اس کے گرد چھوٹی چھوٹی بندیاں۔۔۔۔
مہندی کیا تقدیر بھی بتاتی ہے۔”
اس نے لب وا کیے پرسوچ انداز میں سوال کیا۔۔۔۔۔
کہتے تو ہے کہ مہندی کے رنگ محبت کے” چھب بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔”
افرا نے آئینے میں اس کے عکس کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے بتایا۔۔۔۔۔۔
تب تو اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی دھوکےباز نہیں۔۔۔۔۔
اس نے مٹھی بھینچ کر تلخی سے کہا۔۔۔۔افرا بھی تھم کر اُسے دیکھتی رہ گئی۔۔ اور پھر آہستہ سے مسکرائی۔۔۔۔
بھابھی آپ بے حد خوبصورت لگ رہی ہے۔۔۔۔پونم کے چاند جیسی۔ ۔۔۔۔آج کی پارٹی میں کِسی کی نظر نہیں ہٹے گی آپ سے۔۔۔۔
اُس نے مسکراتے ہوئے پیچھے سے اُس کے گلے میں بازو ڈال کر تعریف کرتے ہوئے اُس تلخئ کو مدغم کرنا چاہا۔۔۔۔نور بے دلی سے مسکرائی۔۔۔۔۔
••••••
گرے اور وہائٹ رنگ پورے ماحول پر چھایا ہوا تھا۔۔۔۔سجاوٹ میں بھی یہی دو رنگ شامل تھے اور سب کی ڈریسنگ بھی انہی رنگوں کے امتزاج کی تھی۔۔۔۔صرف ناز اور حمزہ کے آؤٹ فٹ رائل بلیو کلر میں تھے اور وہ دونوں اُس محفل میں سب سے خاص سب سے جدا نظر آرہے تھے۔۔۔۔
پورا گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ ۔۔۔ملی جلی ہنسی مسکراہٹوں سے کھلکھلا رہا تھا۔۔۔اور اُس شور میں اندر کی وحشت اور تاریکی کچھ دیر کے لیے ہی صحیح کم ہو گئی تھی۔۔۔۔
گرے کلر کے لہنگے میں سب کے اصرار و تلقین پر وہ پور پور سجی تھی۔۔۔نئی دلہن جو تھی۔۔۔۔وہ الگ بات تھی کہ اُس دلہن کے اندرونی رنگ بجھے بجھے سے تھے۔۔
مگر اُداسیوں کو آج اُس نے کہی چھپا لیا تھا۔۔۔
وہ مسکرا رہی تھی۔۔باتیں کر رہی تھی۔۔اُس فنکشن کو کھل کر انجوئے کر رہی تھی اور ہمیشہ کی طرح رئیسہ بیگم اُسے دیکھ دیکھ کر شکر اور افسوس کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ سیریمنی کے بعد جب سب گھر والوں کی ساتھ میں تصویریں بنائی جا رہی تھی۔۔۔تب شہیر کو پکارا گیا اور اُس وقت اُس کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔۔۔۔
وہ اپنے ڈیڈ کے اشارے پر اُس کے ساتھ آکر کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ بھلے فاصلہ تھا مگر اُس کی موجودگی سے نور کے سر سے پیر تک بے چینی بھر گئی تھی۔۔۔۔دل مضطرب سا ہوگیا تھا۔۔۔۔وہاں سے اُڑ کر غائب ہوجانے کو پر تول رہا تھا۔۔۔۔
ملیح چہرہ،صبیح پیشانی،سیاہ بال ،۔۔۔۔ گرے سوٹ وہائٹ شرٹ میں اپنی سوبر اور ڈیسنٹ پرسنالٹی کے ساتھ اُس کے نزدیک کھڑا ایک پرفیکٹ پارٹنر لگ رہا تھا۔۔۔۔اور ان کا کپل ایک مکمل کپل۔۔۔۔۔۔حالانکہ حقیقت اس سے پرے تھی۔۔۔۔
لوگوں کی ستائشی نظریں اور تعریفی کلمات پر جہاں نور کے تاثرات میں یاسیت گھل گئی تھی وہیں دوسری جانب ہمیشہ کی طرح لا تعلقي تھی۔۔۔۔۔بے نیازی تھی۔۔۔۔
عمیر نے شرارتی انداز میں اُسے نور سے قریب ہونے کو کہا تو وہ فوراً فون کا بہانا کرکے سٹیج سے ہی اتر گیا۔۔۔۔۔اور نور کو لگا وہ سب کے سامنے اُس کی اپنی زندگی میں حیثیت واضح کر گیا ہے اور اب سب اُس پر ہنس رہے ہیں۔۔۔۔۔
وہ بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں کو قابو کرتی رہی۔۔لوگوں کی نظریں خود پر دیکھ مروت میں مسکراتی گئی۔۔۔
مگر قسمت مانو آزمائشیں سخت کرنے پر بضد تھی۔۔۔۔
چند منٹوں بعد وہ پھر اُس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔جہاں سب اپنے اپنے ساتھی دار کے ساتھ باہوں میں باہیں ڈالے ہال میں گونجتی میٹھی دھن سے پیروں کے تال ملا رہے تھے۔۔۔۔۔
زبردست اصرار کے ساتھ شہیر اور اُسے بھی ڈانس فلور پر کھینچا گیا ۔۔۔۔۔
اور تب شہیر نے اُس کی طرف ہاتھ بھی بڑھایا تو ایک نظر اٹھا کر اُس کے چہرے پر ڈالنا گوارا نہیں کی۔۔۔۔تاثرات بے تحاشا ضبط ۔۔۔خود پر جبر اور بےبسی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔۔۔۔
نور کا دل چاہ رہا تھا کے وہ اُس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک کر وہاں سے بھاگ جائے۔۔۔۔مگر سب کی نظریں اُن پر تھی۔۔۔۔۔۔بات صرف شہیر احمد کی نہیں بلکہ اُس گھر کے لوگوں کی بھی تھی۔۔۔۔۔۔اور وہ اُنہیں بھری محفل میں شرمندہ ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔۔
تبھی نظریں جھکائے ۔۔۔اشتعال انگیز دھڑکنوں کو قابو کرتے ہوئے اندر کی تمام قوت مجتمع کرکے اپنا ہاتھ اُس کی ہتھیلی پر رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُن چاروں اُنگلیوں کی لرزش شہیر نے شدت سے محسوس کی۔۔۔۔مگر تب بھی اُس کی جانب نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔
قدم آگے کو بڑھائے اور اُس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اُسے نزدیک کرتے ہوئے بے دلی سے اسٹیپ لینے لگا۔۔۔
نور نے جھجھکتے ہوئے دوسرا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھ دیا اور اپنی جانب سے اُس کا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرکے بھی ناکام رہی۔۔ذہن پر اتنا بوجھ تھا کہ پیر زمین سے اٹھا پانے تک کی سکت نہ تھی۔۔
اُس کی نظریں مسلسل جُھکی ہوئی تھی مگر صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ سلگ رہا ہے۔۔۔۔اندر ہی اندر ایک ضبط کی آگ بھڑک رہی ہے جس کے لپٹیں نور کو بھی جھلسا رہی تھیں۔۔۔۔
اُس کا وجود پگھل کر مٹی میں ملتا جا رہا تھا۔۔۔۔آنسوؤں کا بوجھ سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا
شہیر نے اُسے گھما کر خود سے لگایا تو پن کیے گھنے بال کھل کر اُس کے کندھے اور سینے پر بکھر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔اُس کے فراخ سینے سے پشت لگتے ہی نور کی سانسیں زیر و زبر ہوئیں ۔۔۔
اُس نے بے اختیار چہرہ اٹھا کر شہیر کی جانب دیکھا ۔۔۔۔
اور اسی وقت اُس کی نگاہیں بھی نا دانستہ جھیل سی گہری آنکھوں پر آ ٹھہری۔۔۔۔۔
ایک لمحے کے لیے دونوں کی نظریں ملیں تھیں اور اُس لمحے کی تپشِ ایسی تھی کہ اُس کی آنکھوں میں سمندر آ رکے۔۔۔۔۔ منظر بوجھل ہو گئے۔۔۔۔مگر دلِ ناشاد کی کچھ تو لاج رکھنی تھی ۔۔۔تبھی وہ پلکیں جھکا گئی اور اشک آزاد ہو کر عارضِ گلرنگ پر بکھر گئے۔۔۔۔۔
وہ اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے چھڑا کے اُس سے دور ہوتی بنا پلٹے ہی وہاں سے بھاگی اور شہیر نے چند لمحے اُس کی پشت کو دیکھ کر لا پرواہی سے ذہن جھٹکا۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں آگئی اور دل کھول کر اپنی بھڑاس نکالی۔۔۔۔۔
جی بھر کر آنسُو بہائے۔۔۔۔۔اپنا قصور ڈھونڈھنے کی کوشش کرتی رہی۔۔۔۔
یہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ جب وہ کسی احساس کے جاگنے سے پہلے۔۔۔۔۔جذبات کی رو میں بھٹکنے سے پہلے ہی بے مہر ثابت ہو چکا تھا تو پھر یہ افسوس کیوں۔۔۔یہ درد کیسا۔۔۔
شاید اپنے ہمسفر سے وابستہ سنہرے خواب اور امیدوں کے ٹوٹ کر بکھر جانے کا غم تھا جو چین نہیں لینے دے رہا تھا۔۔۔۔
وہ اس حقیقت سے اس درد سے کہیں دور بھاگ جانا چاہتی تھی مگر یہ سچ تو روگ کی طرح اُس کے وجود سے لگ چکا تھا کہ کہیں بھی جاتی تو ساتھ ہی جاتا۔۔۔وہ تو ہر جگہ تھا۔۔۔۔
یہاں تک کہ اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے جس تکیے کو آنسوؤں سے بھگو رہی تھی اُس میں بھی اُسی بے مہر انسان کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔۔۔۔
•••••••
پارٹی ختم ہوئے گھنٹہ گزر چکا تھا۔۔سب تھکے ہارے آرام کی غرض سے اپنے اپنے روم میں جا چکے تھے۔۔سوائے شہیر کے۔۔۔۔
وہ وہیں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔اپنے آپ میں اُلجھا۔۔کِسی گہری سوچ میں بھٹکا۔۔۔۔۔جلتے دل کو سگریٹ کے دھوئیں سے مزید جلاتے ہوئے۔۔۔۔
گرے کورٹ بے ترتیبی سے صوفے پر ہی ایک طرف پڑا ہوا تھا ۔۔۔اور سفید شرٹ کی آستین کہني سے نیچے تک فولڈ تھی۔۔۔۔سر صوفے کی پشت سے ٹکا ہوا تھا اور دونوں پیر سامنے موجود شیشے کے ٹیبل پر رکھے ہوئے تھے۔۔۔۔
محفل کے اختتام کے بعد جیسے وہ سجا سجایا گھر بے رونق لگ رہا تھا ویسے ہی اُس کا چہرہ بھی ویران سا تھا۔۔۔۔
ذہن پر گزری تلخ یادیں بھی سوار تھیں اور ایک نئے رشتے کا بوجھ بھی تھا۔۔۔۔
گھر والوں کی خوشیوں کا خیال بھی تھا مگر دل کی ضد بھی اپنے عروج پر تھی۔۔۔۔
بھیگی آنکھوں سے اٹھتے کئے شکوے کئیں سوال اُسے گھیرے ہوئے تھے ۔۔۔ اُن سے بچ کر نکلنے کی راہ سوجھ نہیں رہی تھی۔۔۔۔اور اُنہیں خود میں سمیٹنے کی ہمت ۔۔۔۔۔تھی ہی نہیں۔۔۔۔
گہری سانس فضا کے سپرد کرکے ایش ٹرے میں ایک اور سگریٹ کے ٹکڑے کا اضافہ کرتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔
یقین تھا کہ روز کی طرح آج بھی اُس کے آنے سے پہلے ہی وہ وہاں سے جا چکی ہوگی مگر و اندر آیا اور لائٹ آن کی تو اُسے بیڈ پر الٹے سیدھے انداز میں پڑے دیکھ کر لمحے بھر کو حیران ہو کر نظریں پھیر گیا۔۔۔۔
نور بھی لائٹ آن ہوتے ہی اپنی جگہ سے اٹھی۔۔۔رو رو کر ذہن بوجھل اور آنکھیں سرخ ہوگئی تھی۔۔۔وقت کا احساس نہیں رہا تھا مگر اب اُس کی آمد پر اپنی غلطی کا شدت سے اندازہ ہوا۔۔۔۔بے ترتیب کپڑے۔۔۔بکھرے بال اور اُلجھے تاثرات۔۔۔۔وہ سامانِ حشر بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
فوراً بیڈ سے اتری تو جلد بازی اور ہڑبڑا ہٹ میں آگے بڑھتے ہوئے دوپٹہ پیروں میں اُلجھ گیا ۔۔۔۔۔ وہ توازن کھو کر زمین بوس ہوتی اُس سے پہلے شہیر نے آگے بڑھ کر اُسے تھام لیا۔۔۔۔
وہ بھی گھبراہٹ میں سانس روکے اُس کے بازو سے آستین کو جکڑ گئی لیکن اتنی ہی تیزی سے ہاتھ ہٹا بھی لیا جب احساس ہوا کہ سہارا دینے والا شخص اُس کی جان کا دشمن ہے۔۔۔
مگر وہ اُسے تھامے ہوئے تھا اور سوالیہ انداز میں دیکھ رہا تھا۔۔۔
مجھے آپ کے سہارے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔
اُس نے اپنے گرد حائل اُس کا بازو بے دردی سے جھٹکتے ہوئے کہا۔۔۔بھلے نظریں جھکائے مگر۔ایک ایک لفظ سے کئیں کئیں معنی جتاتے ہوئے۔۔۔۔بھڑاس بھرے لہجے میں۔۔۔
شہیر نے سرد نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے اُس ہاتھ کی مٹھی بند کی۔۔۔۔
میں صرف آپ کی مدد کر رہا تھا۔۔۔۔
دھیرے ٹھہرے لہجے میں ضبط سے جواب دیا کیوں کے ہر بار نور کا بے لحاظ انداز اُسے غصّہ دلا رہا تھا۔۔۔۔ نور نے اُس کی بات پر ناگوار نظروں سے اُسے دیکھا۔۔۔۔
آپ کی مدد لینے سے میں مر جانا پسند کروں گی۔۔۔۔
وہ آتش فشاں بنی ہوئی تھی۔۔۔۔نا سخت لہجے کی پرواہ تھی نا لفظوں کا احساس۔۔۔۔ سفاکی سے کہتے ہوئے اُس پر اپنی نفرت ظاہر کرکے جانے کو پلٹی۔۔۔شہیر نے خود پر ضبط کی کوشش ناکام پا کر اُس کا بازو پکڑے واپس اپنی جانب کھینچا۔۔۔۔
وہ اُس کے قریب کھینچی چلی آئی ۔۔۔اُس کی سختی دیکھ لمحہ بھر کو سہم گئی۔۔۔۔دھڑکنیں خوف سے تیز ہوگئیں۔۔اور آنکھیں پھیل گئیں۔۔۔۔
آئندہ مجھ سے بات کرتے ہوئے پلیز تم اپنی ٹون پر کنٹرول کرنا۔۔۔۔۔مجھے ایسے رویے برداشت کرنے کی عادت نہیں ہے۔۔۔۔۔
وہ پلیز لگا کر ریکویسٹ اور سختی دکھا کر وارننگ دونوں کی کسر پوری کر چکا تھا۔۔۔سرد نظروں اور گمبھیر لہجے سے بہت کچھ جتا چکا تھا۔۔۔۔ایک ہی جملے میں آپ سے تم تک کا سفر طے کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔ اور نور اُس کے انداز پر حیران رہ گئی تھی۔۔۔
لیکِن وہ حیرانی اگلے گی لمحے غصے میں بدل گئی ۔۔۔۔۔
تو کیا عادت ہے آپ کی لوگوں کی زندگی اور جذباتوں سے کھیلنا۔۔۔۔
وہ تلخئ اور نفرت بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔اپنا ہاتھ اُس سے چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔۔۔اُس کے چبھتے لہجے پر شہیر کی گرفت تھوڑی اور سخت ہوئی تھی۔۔۔ضبط سے آنکھیں سرخ ہوتی گئی تھیں۔۔۔۔۔
کیا بکواس ہے یہ۔ ۔۔۔۔۔
وہ اُس کے چہرے پر جھکا آہستہ آواز اور نہایت سرد لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔نور کچھ لمحے ساکت سی اُس کی شرر بار نظروں کو دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔
اگر آپ کی زندگی میں کِسی نئے رشتے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔۔۔۔اگر آپ کے لیے کِسی کا اس کمرے بھی اضافہ ناقابلِ قبول تھا تو پھر آپ نے مجھے اس آگ میں کیوں گھسیٹا ۔۔۔۔۔۔
وہ غصے کی قید سے نکل کر نہایت ٹھہرے انداز میں بولی کے بس لب سرسرائے اور دائیں گال پر ایک آنسُو کا اضافہ ہوا۔۔۔۔۔
اُس کا بازو شہیر کی گرفت سے خود بخود چھوٹ گیا۔۔۔۔۔۔
وہ اُس کی بھیگی سرخ آنکھوں میں جکڑ کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔لفظوں میں اُلجھ کر رہ گیا۔۔۔۔۔جانے اُس سوال کی وحشت تھی۔۔۔یا احساسِ ندامت۔۔۔۔مگر دل کی دھڑکنوں نے راہ بدل دی تھی۔۔۔۔۔
وہ بڑی مشکل سے خود میں لوٹا اور نظروں کا رخ بدلتے ہوئے پیچھے ہوا۔۔۔۔
میں آپ سے نہیں پوچھتی کے آپ کیوں میرے وجود سے غافل ہے۔۔۔۔مجھے نہیں پرواہ کے آپ کو مجھ میں دلچسپی کیوں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھے آپ کی لا تعلقی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔میری بلا سے آپ ساری عمر اپنی ناکام محبت پر روتے پھریں۔۔۔۔
لیکِن مجھے خود اپنی زندگی میں شامل کرکے اتنی بے رحمی سے ٹھکرانے کا حق کس نے دیا آپکو۔۔۔۔۔
وہ اُسی بکھرے بکھرے انداز میں اُس سے سوال کرنے لگی۔۔۔۔۔جو دل میں درد بھرا تھا وہ اُس پر انڈیلتی گئی۔۔۔نظریں اُس کے چہرے کے دائیں رخ پر تھیں۔۔۔۔اور وہ مجرم بن کر لب سیے کھڑا تھا۔۔۔۔۔جواب تھے ہی نہیں۔۔۔
ایک اچھا بیٹا بن کر اپنی ماں کی خواہش پوری کرتے ہوئے آپکو یہ خیال نہیں آیا کے بات کسی بے جان شئے کو گھر لانے کی نہیں بلکہ آپ کی ہی طرح ایک انسانی دل رکھنے والی لڑکی کی ہے۔۔۔۔جس کے اندر جذبات بھی ہو سکتے ہے۔۔۔۔جو آپ کی بے حسی اور خود غرضی سے ٹوٹ بھی سکتی ہے۔۔۔۔
اُس کے آنسو آواز میں رکاوٹ بننے لگے۔۔۔۔
درد حد سے سوا ہوا۔۔۔
وہ رک کر اِنتظار کرنے لگی کے اُس کے سوال کا کوئی تو جواب ملیگا۔۔۔۔بھلے وہ تسلی بخش ہو یا نہ ہو۔۔۔
کیا آپ کے پاس میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
اُس کی خاموشی پر وہ جھنجھلا کر بولی شہیر نے بے بسی سے آنکھیں بند کرکے کھولیں اور لب بھینچے۔۔۔۔۔
کیا اب آپ کو میرا یہ تلخ رویہ برا نہیں لگ رہا۔۔۔۔
اُس نے زخمی سا مسکراتے ہوئے طنز کیا ۔۔۔شہیر نے بے تاثر نظروں سے اُس کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔۔کیسا وحشت زدہ انداز تھا ۔۔۔۔کیسی گھائل کرتی آنکھیں تھیں۔۔۔۔کیسا بکھرا بکھرا روپ تھا۔۔۔۔۔وہ بس دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔
میں نہیں جانتی کے کون غلط ہے کون صحیح۔۔۔۔۔یا پھر میری قِسمت ہی مجھ سے یہ امتحان چاہتی ہے۔۔۔۔ لیکن آپ نے مجھے ایک ایسی جگہ لا کر کھڑا کیا ہے جہاں نا آگے جانے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے نا پیچھے پلٹنے کی راہ دکھائی دے رہی ہے۔۔۔مجھے نہیں سمجھ آرہا کے میں کیا کروں۔۔۔۔۔
وہ اس کے اپنی آنکھوں میں دیکھنے پر بے بسی اور دکھ سے بولی۔۔۔شاید اب بھی یہ شکوے زباں تک نہیں آتے اگر وہ اس وقت اُس وقت سامنے نہ آتا جب وہ بھری بیٹھی تھی۔۔۔
“اور جب سوچتی ہو کے خود کو حالات پر چھوڑ دوں تو سوال ملتا ہے کے کیسے یہ پل پل کی اذیت سہی جاۓ گی۔۔۔”
“کِسی کے ٹھکرا دینے کے باوجود اُس پر مسلط رہنا۔۔آسان تو نہیں۔۔۔۔اپنی عزت نفس کو کچل کر جینا۔۔جینا تو نہیں۔۔۔”
“ہر نظر ترس کھاتی ہے۔۔۔۔ہر انسان ہمدردی جتاتا ہے۔۔۔ضمیر چین نہیں لینے دیتا۔۔۔اعتماد کی دھجیاں بکھر جاتی ہے۔۔۔کچھ بھی تو نہیں رہ جاتا جو نظر اٹھا کر بات کرنے کے قابل چھوڑے۔۔۔”
اور اگر پیچھے پلٹتی ہو تو اپنوں کی مجبوری نظر آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔بابا کی بے بسی اور ماں کے آنسو۔۔۔۔۔حالات کا بوجھ ۔۔۔لوگوں کی سوالیہ نظریں۔۔۔۔۔اپنے آپ پر اٹھتی لاکھوں اُنگلیاں۔۔۔۔
وہ اُس کے دیے دکھ اُس کے ہی آگے روتی گئی۔۔۔جیسے وہ دشمن نہیں اُس کا خیر خواہ ہو۔۔۔۔۔جو اُسے نجات غم کا کوئی مشورہ دے دیگا ۔۔۔۔حالانکہ ایسا ممکن نہیں تھا۔۔۔وہ اُسے ایک لفظِ تسلی دینے سے بھی قاصر تھا۔۔۔مگر ہاں ایک احساس ہو گیا تھا کے اُس نے ماہ نور کو صرف نکاح میں ہی نہیں بلکہ اپنے درد میں بھی باندھ لیا تھا۔۔۔۔۔وہ بھی اس وقت اُسی اذیت کو جی رہی تھی جو کب سے شہیر کی زندگی کا حصہ تھی۔۔۔۔۔۔
وہ اُس میں خود کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہی بے بسی۔۔۔۔۔وہی اضطراب۔۔۔۔۔وہی درد ۔۔۔بس وجہ الگ الگ تھی۔۔۔
کہاں جاؤں۔۔۔۔۔کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔۔۔تب بس وہی کرتی ہوں جو میرے بس میں ہے۔۔۔۔۔۔آپ سے نفرت۔۔۔۔
وہ اپنے چہرے سے آنسُو رگڑ کے سرخ آنکھوں میں غضب لیے بولی۔۔۔۔۔
مجھے آپ سے بے انتہا نفرت ہے۔۔۔۔۔
اتنی جس کا آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔۔۔
اُس نے قدم پیچھے لیتے ہوئے ایک ایک لفظ کو تلخئ سے ادا کرکے اُس پر ایک نفرت بھری نگاہ ڈالی اور پلٹ کر اسٹڈی روم میں چلی گئی۔۔۔
وہ بہُت دیر وہی کھڑا رہا۔۔۔اُس کے لفظوں کی بازگشت کو اپنے اطراف میں گونجتا محسوس کرتا رہا۔۔۔