محرم میرے

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 6

بھلے اُس نے غصے میں ایسا کیا تھا مگر اُسے اپنی غلطی کا اندازہ تھا اور اس بات پر افسوس بھی کہ شاید اُس کی وجہ سے کچھ بہُت غلط بھی ہو سکتا تھا۔۔۔۔ گاڑی کے اُس زوردار تصادم کو سوچ سوچ کر ہی اُس کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔۔۔اوپر سے شہیر کا غصّہ بھی اب بے مطلب نہیں تھا۔۔۔وہ غلطی پر جو تھی ۔۔
اُس نے ایک نظر کھڑکی کے شیشے کے پار سے شہیر کی جانب دیکھا تو وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا ۔۔۔بارش کی مدھم بوندیں اُس کے گھنے بالوں اور چہرے پر چمک رہی تھی۔۔۔۔جیکٹ اُتار دی تھی اسلئے آف وہائٹ شرٹ کے بازو اور شولڈر پر تیزی سے پھیلتے خون کے نشان واضح دکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔جنہیں دیکھ وہ حیرت سے پل بھر کو سانس روک گئی اور بے یقینی کی کیفیت میں تیزی سے کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلی ۔۔۔۔
“ہاں۔۔۔جلدی پہنچو۔۔۔۔”
وہ یقیناً کِسی کو مدد کے لیے بلا رہا تھا نور نے باہر نکل کر بے اختیار ہی اُس کے بازو کو چھوا تو وہ چونک کر اُس کی جانب پلٹا۔۔۔۔۔اور وہ اپنی بے اختیاری پر شرمندہ ہو کر نظریں جھکائے ہاتھ پیچھے کر گئی۔۔۔
“”آپ کو بہُت زیادہ چوٹ لگی ہے شاید۔۔۔۔۔آپ پلیز۔۔۔۔””
جھجھک کے باوجود فکرمندی سے بولی لیکِن شہیر نے ایکدم سے اُس کے لبوں تک انگلی لے جا کر اُسے بولنے سے روک دیا نور نے حیرت سے اُس کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔نگاہیں سرد مہر تھی۔ ۔۔۔۔ہونٹوں اور انگلی کے درمیان آدھے انچ کا فاصلا تھا پھر بھی نور کا دل پوری شدت سے سمٹ گیا ۔۔۔گھبراہٹ ہی گھبراہٹ تھی کیوں کے سامنے والے کے تاثرات ہی ایسے تھے۔۔۔۔
اُس نے ہاتھ میں پکڑی جیکٹ بونٹ پر ڈالی۔۔۔۔شاک کھڑی نور کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی کا پچھلا ڈور کھول کر اُسے اندر بٹھانے کے بعد خود بھی اندر گھستے ہوۓ دروازہ بند کیا۔۔۔۔جب کے نور خوفزدہ بھی تھی اور حیران بھی کیونکہ شہیر کے انداز ہی ڈرانے والے تھے۔۔۔۔
“کیا چاہتی ہو تم۔۔۔۔۔””
وہ اُس کی جانب رخ کرکے بیٹھا سنجیدگی سے پوچھنے لگا نور کا ہاتھ ہنوز اُس کے ہاتھ میں تھا ۔۔نور اُس کا سوال سمجھ تو گئی مگر جانے کیوں اُس وقت ہمت کی کمی محسوس ہوئی۔۔۔تبھی نظریں جھکا گئی۔۔۔
“میں چاہتی ہوں آپ پٹی کروا لیں۔۔۔خون بہہ رہا ہے ۔۔۔۔”
وہ انجان بنی۔۔۔ نظریں نیچے کرکے بے معنی سا جواب دیتی خاموش ہوئی۔۔۔۔شہیر نے ضبط سے اُسے دیکھا اور آنکھیں بند کرکے کھولیں۔۔۔
“۔۔۔۔میں جانتا ہوں تمہیں مجھ پر غصّہ ہے لیکن کیا تم اس طرح کروگی۔۔۔۔۔اندازہ ہے کہ کیا ہو سکتا تھا ابھی۔۔۔۔تمہاری جان جا سکتی تھی میری جان جا سکتی تھی۔۔۔کچھ بھی ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔اور اس طرح کی حرکت کرکے ثابت کیا کرنا ہے تمہیں کہ میں مجرم ہوں۔۔۔”
وہ نہایت گمبھیر تا سے مگر نرم لہجے میں بول رہا تھا مگر نور سے نظریں اٹھا کر اُس کی جانب دیکھا نہیں گیا۔۔۔بس اُس کی آنکھیں پھر سے بھیگنے لگی۔
“میں خود مانتا ہوں کے میں غلط ہوں۔۔۔۔مجھے تم سے پہلے ہی سب کچھ کلیئر کرلینا چاہئے تھا۔۔۔۔لیکِن اب وہ موقع نکل چکا ہے۔۔۔میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔”
“ہاں میں نے کہا کہ میرے نزدیک اس شادی کی اہمیت نہیں ہے کیوں کے یہ سچ ہے۔۔۔۔کیا تم چاہتی ہو میں اس سچ کے برخلاف خود کو خوش دکھا کر تمہارے ساتھ نارمل ہسبنڈ کی طرح بہیو کروں۔۔۔۔۔”
وہ پہلی دفعہ اُس سے اتنی لمبی بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔شاید بے خبری میں ہی نور کا ہاتھ مسلسل تھامے ہوئے تھا ۔۔اور بہُت سنجیدگی سے اُسے صفائی دینے کے ساتھ سوال کر رہا تھا۔۔۔ جواب میں نور یہ بھی نہیں کہہ پا رہی تھی کہ اُس نے دانستہ ایسی غلطی نہیں کی۔۔۔۔۔اُس حادثے کی وجہ ضرور وہ تھی مگر اُس کا ارادہ کوئی بدلا لینے کا نہیں تھا۔۔۔
“میرے لیے مشکل صحیح پر ناممکن نہیں ہے تمہارے حقوق ادا کرنا۔۔۔۔ تمہارے ساتھ کچھ وقت گزارنا۔۔۔تمہاری خواہشیں پوری کرنا۔۔۔۔۔۔لیکِن وہ سچ نہیں ایک فریب ہوگا اور میں اپنے دل کو دھوکہ دے کر اس بات پر راضی کر سکتا ہوں۔۔۔پر تمہیں فریب نہیں دینا چاہتا۔۔۔۔۔۔”
اُس نے بہُت سفاک دل سے کہا ۔۔۔کیوں کے اُس نے نور کے گاڑی سے کودنے کی کوشش کا بہت غلط مطلب لیا تھا۔۔۔۔ اور وہ نہیں چاہتا تھا آئندہ ایسا کچھ ہو۔۔۔۔
جب کے نور کو بے حد ذلت کا احساس ہوا۔۔۔اُسے تو صرف اس بات کا غم تھا کے قسمت نے اُسے ایک لا حاصل شخص سے باندھ دیا ہے۔۔۔اُس کے بعد خواب خواہشیں اور خوشی کے متعلق تو اُس نے کوئی چاہ بھی نہیں کی تھی۔جب کے وہ کچھ اور ہی سمجھ کر اپنی باتوں سے اُسے چوٹ پہنچا رہا تھا۔۔ ۔۔۔۔اُس نے بے بسی سے آنکھیں بند کرکے کھولیں ۔۔۔۔۔۔۔بولی کچھ نہیں ۔۔۔۔
“میری طرف دیکھو اور بتاؤ مجھے کیا چاہتی ہو تم۔ ۔۔ “
وہ سرخ جلتی نگاہوں سے اُس کے نم چہرے کو دیکھتا اُس کی مسلسل خاموشی پر کچھ سیکنڈ رک کر آہستہ سے بولا تب نور نے نظریں اٹھا کر سرخ بھیگی آنکھوں سے اُس کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔اور جانے کیوں اُس لمحے شہیر کے دل نے چند بیٹس مس کی۔۔۔۔شاید احساس ندامت یا ہمدری میں ۔۔۔۔
“طلاق۔۔۔۔۔۔۔”
نور نے پل میں فیصلہ کرکے ایک لفظ میں ہی اُس کے تمام سوالوں کا جواب دے دیا اور شہیر کے ہاتھ سے اُس کا ہاتھ بے ساختہ چھوٹ گیا۔۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔ لیکن وہ لفظ کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔وجہ سے وہ انجان تھا۔۔۔۔۔
“”ٹھیک ہے۔۔۔۔تم جب اور جس وقت چاہو گی میں تمہیں آزاد کردوں گا۔۔۔لیکِن تب تک تم ایسی کوئی حرکت مت کرنا ۔۔۔for god sake “
وہ رک کے اُسی اطمینان سے اپنے مخصوص ٹھہرے لہجے میں بولا اور ایک دزدیدہ نظر اُس کے دانت میں جکڑے نازک لب پر ڈال کر باہر نکلنے کے لیے دروازہ کھولا مگر۔۔۔۔
“مجھے دوائی لگانے دیجئے۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔”
نور کی نظر اُس کے پلٹتے ہی شرٹ پر پڑی جس کی آستین بھی خون سے نم تھی۔اور شولڈر بھی اُس نے جلدی سے کہا ۔تو۔۔شہیر نے رک کر اُس کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔پھر دروازہ واپس بند کرکے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر اُس کی طرف بڑھایا۔۔۔
رخ نور کے مخالف جانب کرتے ہوئے شرٹ کے چند بٹن کھول کر ایک کندھے سے نیچے گرائی ۔۔۔۔
نور نے جھجھک کر ہاتھ اُس کی جانب بڑھایا۔۔۔۔ کاٹن سے کندھے اور بازو پر پھیلتا خون صاف کیا۔۔۔۔۔اور چار پانچ جگہ پڑے چھوٹے چھوٹے زخموں پر اؤنمنٹ لگائی۔۔۔۔شہیر کے چہرے پر تو کوئی تاثرات نہیں تھے مگر درد کے آثار اُس کے چہرے پر صاف نظر آرہے تھے۔۔۔۔
اُس نے تسلی کرکے ہاتھ پیچھے کیا تو شہیر نے شرٹ واپس اوپر کی اور بنا اُس کی جانب دیکھے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔۔۔
کچھ ہی دیر گزری تب ڈرائیور دوسری گاڑی لے کر وہاں پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ گاڑی کا رخ واپسی کی جانب تھا اور گھر پہنچنے تک دونوں کے درمیان طویل خاموشی تھی۔۔۔۔۔۔۔
دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اُلجھے ہوئے تھے۔۔۔۔
“سینکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیرِ لب
اور ایک پتھر تھا خموشی کا جو ہٹتا نا تھا۔۔۔”
بارش پوری طرح تھم چکی تھی اور اندھیرا کم ہونے لگا تھا ۔ ۔کرنیں بادلوں کی اونٹ سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔۔
“مام کو اس بارے میں کچھ مت بتانا۔۔۔۔”
اُس کی آواز نے خاموشی اور تخیل دونوں کو توڑا تو وہ چونکی۔۔۔۔ ورنہ تو اُسے گھر تک آنے اور گاڑی کے رکنے کا بھی احساس نہیں ہوا تھا۔۔۔اور شاید اسی وجہ سے شہیر نے اُسے متوجہ کیا تھا۔۔۔۔
وہ بنا کوئی جواب دیے یا اُس کی جانب دیکھے گاڑی سے اُتر کر سست قدموں سے اندر کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔
شہیر نے بھی اندر آکر کپڑے چینج کیے اور بنا اپنی مام سے ملے ہی وہاں سے نکل گیا کیوں کہ وہ فلہال کوئی سوال جواب کا سلسلہ نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔
•••••••
دِن رات ڈھلتے گئے۔۔۔۔گھر میں رونقوں کا سماں بندھ گیا۔۔۔۔۔۔وقار احمد خان کی اکلوتی بیٹی کی شادی تھی اور اُسی لحاظ اور شان سے تیاریاں چل رہی تھی۔۔۔۔دس دن پہلے سے ہی اُس بنگلے کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس پر چند نزدیکی رشتےداروں کی آمد نے گھر میں چہل پہل خاصی بڑھا دی تھی۔۔۔۔
نور بھی سب سے گھل مل کر رہنے لگی تھی۔۔۔اس نے اپنے آپ کو سمجھا لیا تھا کہ کچھ باتیں ہمارے اختیار سے باہر تقدیر کے حوالے ہوتی ہے اور ایسی صورت میں سب خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔اسی لیے وہ۔خود کو ہر فکر اور غم سے آزاد کرکے جتنے دن بچے تھے انہیں خوش رہ کر گزارنا چاہتی ۔۔۔۔۔۔اچھی یادیں سمیٹ لینا چاہتی تھی ۔۔۔وہ الگ بات تھی کے دل کبھی کبھی حد سے زیادہ اُداس ہوجاتا تھا۔۔۔۔مگر اس گھر میں محبت اور پیار کی کمی نہیں تھی۔۔۔
اب بھی وہ کچن میں چائے بناتے ہوئے شہیر کے پچھلے رویے کے متعلق سوچ رہی تھی جب افرا اور عمیر اسے زبردستی کھینچ کر باہر گارڈن میں لے آئے ۔۔۔۔جہاں باقی سب پہلے سے موجود تھے ۔۔۔۔
رئیسہ بیگم وحیدہ بیگم اور شہیر کی خالہ جو دو دن پہلے ہی آئیں تھیں ۔۔۔۔۔ایک طرف بیٹھی جانے کون کون سے موضوع پر بحث کر رہی تھی جب کے دوسری طرف وہ سارے کزنز کرکٹ کھیلنے کی تیاری میں تھے جن میں ناز افرا اور عمیر کے ساتھ خالہ کے دونوں بیٹے ایان امان۔۔۔ بیٹی عنایہ اور بہو نغمہ بھی شامل تھی۔۔۔۔
دو دن سے بارش نے بریک لیا ہوا تھا مگر موسم کافی خوشگوار تھا اور بادل پوری آب و تاب سے چھائے بارش کی آمد کی نوید سنا رہے تھے۔۔۔ٹھنڈی فرحت بخش ہوائیں زوروں پر تھیں۔۔۔۔
” ہماری ٹیم کی کیپٹن تو بھابھی۔ ہی ہوں گی۔۔۔”
اُن سب نے چار چار لوگوں کی ٹیم بنا کر نور کو لاکھ منع کرنے کے بعد بھی ساتھ گھسیٹا تھا اور ساتھ ہی افرا نے علان کرتے ہوئے اس کے سر پر لال رنگ کی کیپ پہنا دی تھی۔۔۔ جس پر ایان اور ناز نے بھی جوش میں حامی بھری تھی ۔۔۔
جب کے دوسری ٹیم میں عمیر۔۔۔ عنایہ۔۔۔ امان اور اس کی بیوی نغمہ شامل تھے ۔۔۔
“نہیں مجھ سے نہیں ہوگا۔۔۔آپ لوگ ہار جاؤگے ۔۔۔”
اُس نے بیچارگی سے کہا ۔۔۔۔وہ تو کھل کر بات کرنا بھی بھول چکی تھی ۔۔۔ہمیشہ سمٹی سمٹی رہتی تھی ۔۔۔۔اور سب کے ساتھ یوں کھیلنا ۔۔وہ بھی جن میں کچھ تو بلکل اجنبی جیسے ہی تھے اُس کے لیے۔۔۔۔
کوئی بات نہیں بیٹا ۔۔۔۔یہاں کونسا میچ چل رہا ہے۔۔۔۔جیتے تو جیتے ہارے تو ہارے۔۔۔۔تم فکر مت کرو بس کھیلو اور انجوئے کرو۔۔۔۔۔
دور سے ہی وحیدہ بیگم نے بھی آواز لگا کے حوصلا بڑھایا اور رئیسہ بیگم نے بھی اشارے سے اصرار کیا تو وہ مزید انکار نہیں کر پائی۔۔۔اور اسے کھیلتے ہی بنی۔۔۔
اور پھر آہستہ آہستہ وہ ایک نئی نور بن کر سب کو حیران کر گئی ۔۔۔جس کی ہنسی اور جوش دیکھنے لائق تھا۔۔۔۔
اُس کا کیپٹن بن کر پورے راب سے ایک ایک کو انسٹرکشن دینا۔۔۔غلطی کرنے پر ڈانٹ لگانا اور اسکور کرنے پر زوروں سے خوش ہونا سب دیکھتے رہ گئے ۔۔۔۔جیسے وہ اپنے آپ کو ہی بھول گئی تھی ۔۔۔
بارش کی ہلکی ہلکی شروعات پر خواتین اٹھ کر اندرجا چکی تھی باقی سب نے بھی ایک بار کو گیم چھوڑنا چاہا مگر نور اُس میں تیار نہیں ہوئی ۔۔۔نہ اُس کی ایکسائیٹمنٹ میں کوئی کمی آئی ۔۔۔
بارش میں بھیگتے ہوئے سب ہی گیم کو خوب انجوائے کر رہے تھے۔۔۔۔
بیٹنگ کی باری عمیر کی تھی اور باؤلنگ افرا کے ذمے تھی۔۔۔جب کے وہ آخر میں کھڑی فیلڈنگ کر رہی تھی۔۔۔جب عمیر کے بیٹ مارتے ہی بال اچھل کر اُس کی جانب آئی تو سب نے مل کر “بھابی کیچ بھابھی کیچ” کا شور مچا دیا۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں چبھتی بوندوں کو سہتے ہوئے پورے انہماک سے چہرہ اوپر کیے بال کو دیکھتی اُس کے نشانے تک پہنچنے کی کوشش میں پیچھے ہوتی جا رہی تھی کہ کسی آہنی وجود سے ٹکرائی ۔۔۔پیر ڈگمگائے۔۔۔خوف سے آنکھیں پھٹی ۔۔۔ سانس رکا اور توازن بگڑا تو پیچھے کو ہی لڑھک گئی ۔۔۔ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے پیچھے کرکے جو ہاتھ آیا تھام کر سہارا لیا۔۔ ۔۔حالانکہ وہ پہلے ہی کمر کے گرد حفاظتی حصار باندھ چکا تھا۔۔۔
نور کو جب خود کے سلامت سالم ہونے کا یقین ہوا تو سانس بحال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو دیکھا جس میں اسکن کلر کی شرٹ کا گریبان بے دردی سے جکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
اسے دماغ پر زیادہ زور دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔۔۔۔جانے کیوں لیکن۔اُس شخص کی موجودگی کا احساس ہی اُس کی نشاندھی کردیتا تھا۔۔۔۔
تبھی اُس نے جب نظریں اس کے چہرے کی جانب اٹھائی تو کوئی حیرت یا تعجب نہیں تھا۔۔۔مگر دھڑکنوں میں نہ معلوم سی ہلچل ضرور تھی ۔۔۔
وہ اس کے سینے سے سر لگاکر اپنا بوجھ اُس پر ڈالے۔۔۔۔۔ اُس کے کالر کو تھامے ہوئے کھڑی بارش میں بھیگ رہی تھی اور شہیر کا ہاتھ اُس کی کمر پر تھا ۔۔۔۔۔جیسے ہی اسے اپنی اس پوزیشن کا احساس ہوا وہ ہاتھ ۔۔۔ہاتھ نہیں بلکہ اپنے پیٹ پر جلتے ہوئے کوئلے کی مانند لگا۔۔۔۔۔۔۔اور وہ بجلی کی تیزی سے سیدھی ہو کر پیچھے ہٹی ۔۔۔۔
“بھابھی آپ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔۔“
اسی لمحے باقی سب بھی اُس کے قریب آئے ایان نے فکرمندی سے پوچھتے ہوئے نور کے کندھے پر ہاتھ رکھنا چاہا لیکن اس کا ہاتھ ایک بالش کے فاصلے پر ایکدم سے شہیر نے تھام کر نہ صرف اسے بلکہ باقی سب کو بھی حیران کیا ۔۔۔۔
“کیسے ہو ۔۔۔۔۔۔“
وہ اس کا ہاتھ تھام کر نیچے کرتے ہوئے فارملی بولا مگر تاثرات بلکل بھی لفظوں کے متشابہ نہیں تھے۔۔۔۔اور خوش مزاجی کا تو دور دور تک کوئی پتہ ہی نہیں تھا۔ ۔۔۔۔بد مزگی چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔۔۔۔
وجہ ایک تو نور کا یوں بارش میں اپنے آپ سے لا پرواہی برتتے ہوئے غیروں کے سامنے ہونا۔۔۔۔دوسرا اُن سے یہ بے تکلفی۔۔۔۔۔۔حالانکہ وہ اسے جلن ماننے سے انکاری تھا اور اندر آتے ہوئے اسے دیکھ کر ضبط کرتے ہوتے خاموشی سے وہاں سے گزر جانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔۔۔۔۔لیکن اس وقت ایان کا بڑھتا ہاتھ دیکھ اُس کی حرکت بے ارادہ بے اختیار تھی ۔۔
ایان نا سمجھی میں بس ذبردستی مسکرا دیا ۔۔۔۔وہ نظریں پھیرے کھڑی نُور کو ایک نظر دیکھ کر اندر کی جانب بڑھ گیا تھا اور شاید کوئی کوشش بھی کرتا اسے روکنے کی مگر اس وقت اُس کے انداز دیکھ کسی کی ہمت نہیں ہوئی۔۔۔۔
اُن سب نے بھی کھیل کو وہیں ختم کرکے اپنے اپنے کمرے کی راہ لی جبکہ نور کو اب اپنے روم میں جاتے ہوئے کچھ جھجھک سی ہو رہی تھی۔۔۔۔
اُس نے روم میں آکر ۔۔۔۔بہت غصے سے دروازہ کو دھکیل کر بند کیا کہ خاموش کمرہ گونج اٹھا ۔۔۔۔
اسے اپنے غصے کی سمجھ آرہی تھی اور نہ یہ کہ وہ کیوں خود کو نور کے معاملے میں انوالو کر رہا ہے ۔۔۔سب سے بڑی حیرت اور پریشانی کی بات تو اُس کے لئے یہ تھی کہ پچھلے تئیس دن وہ گھر سے دور تھا اور اُن تئیس دنوں میں اُس نے سب سے زیادہ جس کے بارے میں سوچا تھا وہ نور تھی۔۔۔۔
بھلے وہ کوئی خاص جذباتی سوچیں نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔اُن میں کوئی افسوس ۔۔۔کوئی دکھ کوئی حسرت شامل نہیں تھی۔۔۔۔۔۔بس کچھ باتوں کا شمار۔۔۔۔کبھی اُس کی ناراضگی کا احساس تھا ۔۔۔۔۔تو کبھی اُس کے ایک لفظ” طلاق” کی بازگشت ۔۔۔۔۔۔مگر حقیقت یہ تھی کہ ذہن شروع جہاں سے بھی ہوتا خیال نور کی جانب ہی جا کر رکتے۔۔۔۔
اور شہیر کے لیے یہ پریشانی کا باعث تھا کیوں کہ وہ ایسا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔اسی لیے تو شادی کے صرف سات دن پہلے گھر آیا تھا مگر گھر آتے ہی اسے بے چین ہونے کی ایک اور وجہ مل گئی تھی۔۔۔۔
حالانکہ عائزہ تو اس معاملے نے بہت بیباک رہی تھی اُس کی لڑکوں سے دوستی۔۔۔۔پارٹیز میں جانا۔۔۔ڈانس کرنا۔۔گلے ملنا سب اتنا عام تھا کے اسے روکنے کا سوچتے ہوئے بھی بے تکا سا محسوس ہوتا تھا۔۔۔اور وہ کبھی کوشش بھی کرتا تو اسے پست نگاہ اور چھوٹی سوچ رکھنے والا کہہ کر منہ پھیر لیتی ۔۔۔۔
حالانکہ ہر بات سوچ کی نہیں جذبات کی بھی ہوتی ہے ۔۔۔
مگر وہ سمجھتا تھا کہ نور ایسی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور حالات جیسے بھی تھے مگر وہ اُس کی بیوی تھی۔۔۔۔اُس سے وابستہ تھی۔۔۔۔شاید یہی احساسِ ملکیت اسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial