محرم میرے

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 8 حصہ 2

پچھلے کچھ دنوں سے جیسے اس نے حقیقت سے منہ ہی موڈ لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اُسے بھول چکا تھا کہ وہ ناز کی شادی تک یہاں رکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ صرف رئیسہ بیگم کی خاطر۔۔۔۔۔
وہ بھول چکی تھی کہ اُس نے خود اس رشتے سے آزاد ہونے کا فیصلہ کرکے شہیر سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سب بھول کر خوشی خوشی اس شادی کی رسموں میں مگن ہو گئی تھی۔۔۔
لیکِن شہیر کے برتاؤ نے اُسے واپس زمین پر لا پٹکھا تھا ۔۔۔۔اُس کی اوقات یاد دلا دی تھی۔۔۔۔
اور اب وہ ایک دن اُسے ایک برس کے سمان لگ تھا تھا۔۔۔۔۔اُس ایک دن کا ہر پل اُسے سانپ کی طرح ڈس رہا تھا۔۔۔لمحے کاٹے نہیں کٹ رہے تھے ۔۔ایک ایک سانس لینا مشکل تھا۔۔۔۔
وہ کس قدر ضبط کے ساتھ لبوں پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے اُس شادی میں شامل تھی صرف اُس کا دل ہی جانتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
شادی بہت شان اور ہنگامے کے ساتھ ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ رخصتی اندھیرا ہونے سے پہلے ہی ہو چکی تھی کیوں کے ایسا ناز کے سسرال کی جانب سے مطالبہ تھا ۔۔۔۔۔اور نور کا اُس گھر میں وقت بھی اُس شادی کے اختتام کے ساتھ ہی پورا ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے پھر یہ نہیں سوچا کہ کون کیا سمجھے گا۔۔۔۔اُس نے مزید کچھ گھنٹے بھی انتظار نہیں کیا۔۔۔۔اُس نے گھر میں موجود مہمانوں کا بھی خیال نہیں کیا۔۔۔۔۔کیوں کے اب وہ وہاں پل بھر بھی ٹہرنے کا کوئی بہانہ کوئی جواز نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ویسے بھی ایک دن سب کو معلوم ہو ہی جانا تھا۔۔۔۔
وہ اپنا بیگ تھام کر نیچے آئی تو ہال میں گھر کے افراد کے علاوہ صرف رئیسہ بیگم کی بہن اور اُن کی بہو موجود تھے۔۔۔وقار صاحب بھی وہیں بیٹھے تھے مگر ۔۔۔۔نہ شہیر وہاں تھا نہیں عمیر ۔۔۔۔۔۔باقی سب مہمان شاید آرام کی غرض سے کمروں میں جا چکے تھے ۔۔۔۔
اُسے بیگ کے ساتھ نیچے آتے دیکھ سب حیران ہو گئے ۔۔۔۔۔سیاہ سادے سے سوٹ میں ۔۔دھلا شفاف چہرہ اور بھیگی سرخ آنکھیں۔۔۔۔۔۔سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ گئی ۔۔۔۔
نور نے ساکت بیٹھی رئیسہ بیگم کے پاس آکر اپنے جانے کی اجازت نہیں لی بلکہ اطلاع دی ۔۔۔اور اُس کی بات پر رئیسہ بیگم تو ہارے انداز میں اُسے دیکھتی آنسو بہاتی رہی مگر وحیدہ بیگم نے اُسے سمجھانے کی کوشش ضرور کی۔۔۔۔۔۔۔اپنی بیٹی کی وجہ سے ہونے والے حالات اور شہیر کی مجبوریاں گنوائی ۔۔۔۔۔اُس سے امیدیں جتائیں ۔۔۔۔کچھ وقت مانگا ۔۔۔۔۔۔مگر اُس نے جیسے سنا ہی نہ ہو کوئی جواب تک نہیں دیا۔۔۔۔نظریں جھکائے ۔۔۔۔بت بنی سنتی رہی۔۔۔۔
افرا الگ روئے جا رہی تھی جب کے وقار صاحب خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔۔۔۔اُن کے اختیار میں نہیں تھا کہ وہ اُسے کچھ کہہ بھی سکے کیوں کے شہیر سے بخوبی واقف تھے کے یہ اُس کا ہی کیا دھرا ہوگا۔۔۔۔بس وحیدہ بیگم ہی تھی وہاں جو اُسے دلاسے دے دے کر روکنے کی کوشش کر رہیں تھی۔۔۔۔
“۔۔۔۔جانے دیجئے اُسے۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اُسے روکنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔۔۔جب اپنا ہی سکّہ کھوٹا ہے تو اس بچی سے کیسی شکایت۔۔۔۔یہ کیوں ہماری خاطر پستی رہے۔۔۔”
رئیسہ بیگم نے کڑے دل سے اُنہیں روکا ۔۔۔اور خود اٹھ کر اُس کے پاس آئیں جب کے وحیدہ بیگم محض پریشان سی اُنہیں دیکھتی ره گئی۔۔۔۔
مجھے معاف کردینا بیٹا ۔۔۔۔میں بھلے خود غرض بن کر اپنے بیٹے کی زندگی آباد کرنے کے لئے تمہیں یہاں لائی تھی لیکن میں نے خود سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ میں تمہیں اس گھر کی رانی بنا کر رکھوں گی۔۔۔۔۔اتنی خوشیاں دوں گی تمہیں کہ تم اس گھر کی بہو نہیں بیٹی سمجھ سکو خود کو۔۔۔۔۔مگر افسوس نہ میرا خواب میرے بیٹے نے مکمل نہیں ہونے دیا اور نہ میں اپنا وعدہ پورا کر پائی۔۔۔۔۔
تمہیں اس گھر سے صرف دکھ ہی ملے ہیں۔۔۔
ہو سکے تو معاف کردینا مجھے۔۔۔۔۔
اُنہوں نے بے بسی سے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے اور وہ سر نفی میں ہلاتی ایکدم سے ٹوٹ کے اُن کے گلے لگ گئی اور جی بھر کر روی ۔۔۔۔۔۔سب خاموش خستہ جان کھڑے رہے ۔۔۔۔۔
اُنہوں نے اُسے سمجھایا سنبھالا اور شہیر کو بھی فون کرکے گھر بلایا۔۔۔۔نور نے اُس کے ساتھ جانے سے انکار کیا مگر رئیسہ بیگم نے نہیں مانی کے وہ اُسے اکیلے نہیں بھیج سکتی۔۔۔۔۔
وہ گھر کے باہر ہی موجود تھا۔۔۔اگلے دو منٹ میں اندر چلا آیا اور اندر آتے ہی بس چند سیکنڈ میں صورت حال سمجھ گیا۔۔۔۔۔
اُس کی نظریں نور کی جانب آکر رک گئیں اور دل بے چین سا ہوا۔۔۔۔۔۔
“نور جا رہی ہے شہیر۔۔۔۔۔”
رئیسہ بیگم نے اُس کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُسے متوجہ کیا اُس نے نظریں نور سے ہٹا کر نیچے کی مگر اپنی ماں کی جانب نہیں دیکھا۔۔۔
“یہ چلی گئی تو میری امیدیں۔۔۔میرا سکون۔۔۔۔اس گھر کی خوشیاں سب چلی جائیگی۔۔۔۔۔۔روک لو بیٹا اسے پلیز۔۔۔۔۔”
اُنہوں نے ایک آخری کوشش کی پُر امید لہجے میں اُس سے ایک بار پھر خوشامد کی۔۔۔۔نور نے بے ساختہ سر اٹھا کے اُن کی جانب دیکھا۔۔۔۔ایک ہی پل میں اُن کی دلیری بے بسی میں بدل گئی تھی۔۔۔۔پھر وہ منتوں پر اُتر آئیں تھی۔۔۔جب کہ وہ خاموش تھا۔۔۔۔نظریں زمین پر۔۔۔۔۔اُس کے بیگ کے پہیے پر تھی ۔۔۔۔۔دل دماغ اور پورا وجود جیسے خالی تھا۔۔۔۔
اور کانوں میں بازگشت کر رہے تھے چند الفاظ۔۔۔۔۔
” کیا چاہتی ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کا سوال اور پھر ایک جواب
طلاق”
“شہیر کیا تم نے سوچ سمجھ کر اپنی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ لیا ہے۔۔۔تم واقعی ایسا چاہتے ہو ؟؟۔۔۔۔۔۔”
وقار صاحب نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا
اور نور کا دل بے ساختہ بے سبب ہی منتظر تھا شہیر کے جواب کا۔۔۔۔۔۔ لیکِن اگلے ایک منٹ تک اُس کی خاموشی دونوں کو ہی شکست دے گئی تھی۔۔۔۔رئیسہ بیگم کی امید اور نور کا انتظار دونوں خالی لوٹ گئے تھے۔۔۔۔
“وقار ۔۔۔۔اپنے بیٹے سے کہئے کہ نور کو با حفاظت اُس کے گھر چھوڑ آئے۔۔۔۔۔اپنا ایک آخری فرض پورا کرلے اس کے بعد ہماری جانب سے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔۔۔۔۔۔یہ ہرطرف سے آزاد ہے۔۔۔”
اُنہوں نے اُس کی بے حسی پر اُسے تاسف اور دکھ سے دیکھتے ہوئے کہا اور اُن کے بیگانے لہجے پر اُس نے جلتی آنکھیں کو ضبط سے میچ کر کھولا اور اُن کی جانب دیکھا مگر وہ اُس کے چہرے پر ایک بھی نظر ڈالے بنا وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔
№№№№№№
“رات تاریک راستے خاموش
منزلوں تک ہیں قمقمے خاموش “
“آرزوؤں کے ڈھے گئے اہرام
حسرتوں کے ہیں مقبرے خاموش “
“دل کے اجڑے نگر سے گزرے ہیں
کتنی یادوں کے قافلے خاموش”
(ماہر اقبال)
دونوں اُس آخری سفر کے ہمسفر تھے اور درمیان تھی ایک طویل نہ ختم ہونے والی خاموشی۔۔۔۔۔۔۔دو گھنٹے کا راستہ اور مستقل تھکان۔۔۔۔
کوشش کرنے پر بھی کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں آتا تھا جو ایک دوسرے کی سنگت میں خوشنما گزرا ہو۔۔۔
پھر بھی ایک نا معلوم سے کسک دل میں آکر ٹھر گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
“میں چلی جاؤں گی۔۔۔۔”
وہ ایئر پورٹ سے باہر نکل کر ٹیکسی کی جانب بڑھا تھا لیکن نور کی آواز پر رک گیا۔۔۔اور اُس کی جانب دیکھا ۔۔۔۔
“میں چھوڑ دیتا ہوں ۔۔تم۔۔۔۔۔۔”
“آپ نے چھوڑ دیا ہے الریڈی ۔۔۔”
وہ اُس کی بات کاٹ کر بے تاثر لہجے میں بولی۔۔۔۔وہ اُس کے جھکے چہرے کو سنجیدگی سے دیکھنے لگا۔۔
“مام کا کہا آپ نے پورا کر دیا ہے۔۔۔۔اس کے آگے کا سفر میں خود طے کر سکتی ہوں ۔۔مزید آپکو میرے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے”
نور نے یونہی زمین کو تکتے ہوئے کہا اور بیگ تھام کر راستہ بدلنے لگی مگر شہیر نے بیگ کے ہینڈل پر رکھے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُسے روک دیا۔۔۔۔نور نے اتنی ہی تیزی سے اپنا ہاتھ نیچے سے کھینچ لیا۔۔۔۔۔اور اپنے آنچل کو تھام لیا۔۔۔۔
“Just shut up and come with me۔۔۔۔”
شہیر نے بے تاثر لہجے مگر سخت الفاظ میں کہا اور اُس کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا چاہا مگر نور نے قدم آگے نہیں بڑھا یے تو وہ غصے سے اُسے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
“پلیز ۔۔۔۔۔میں نہیں چاہتی کہ آپ میرے ساتھ میرے گھر آئے ۔۔۔۔اسی میں میرے لیے آسانی ہے۔۔۔۔۔”
اُس نے عاجزی سے کہا ۔۔۔۔اور وہ واقعی اکیلی گھر جانا چاہتی تھی تاکہ اُسے دیکھ کر ہی سب سمجھ جائے کہ وہ مہمان بن کر آئی ہے یا ہمیشہ کے لیے لوٹ آئی ہے۔۔۔۔اور اسے زیادہ مشکل نہ اٹھانی پڑی
شہیر نے کچھ پل خاموشی سے اُسے دیکھا ۔۔۔۔ جو وہ سوچ رہی تھی اُسے پڑھنے کی ناکام سی کوشش کی۔۔۔۔۔اور پھر اُس کا ہاتھ کلائی سے نور کی ہتھیلی تک آیا اور انگلیوں سے گزرتے ہوئے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔۔۔۔۔
مگر اس کی نظریں مسلسل نور کہ چہرے پر ٹکی رہی۔۔۔۔۔جنہوں نے اُسے عجیب سے احساس سے دوچار کیا جیسے وہ سرخ پرسوز آنکھیں بول رہی ہے اور دل سن کر جواب دینے کو آگے بڑھ رہا ہو۔۔۔۔
دھڑکنیں آہستہ آہستہ تیز ہونے لگی ۔۔۔۔اور اس سے پہلے کے اپنی حدوں سے باہر نکلتی نور نے منہ پھیر لیا اور قدم تیزی سے آگے بڑھا لیے۔۔۔۔۔
وہاں سے ایک رکشا لے کر وہ اپنے گھر کا ایڈریس بتاتی ایک نئی راہ پر بڑھ گئی۔۔۔۔مگر جب تک ایئرپورٹ کا منظر سامنے لگے شیشے میں نظر آیا تب تک اُس نے شہیر کو اُس منظر میں موجود پایا ۔۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ سب دور ہوتے ہوتے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔۔۔
کب سے رکے آنسو اب رواں ہونے سے نہ وہ روک پائی نا روکنے کی کوشش کی ۔۔۔۔
اُس تاریک سنسان راستے پر آگے بڑھتے ہوئےدل نے چاہا یہ سفر کبھی ختم نہ ہو زندگی کے گزر جانے تک چلتا رہے۔۔۔۔۔۔
کیوں کے اُسے اندازہ تھا کہ اس سفر کی منزل اُسے ایک نئی آزمائش کی جانب لیجانے والی ہے۔۔۔۔۔۔جہاں اُس کے لیے لوگوں کی زہر خند باتوں طعنوں اور الزاموں کی کمی نہیں ہوگی۔۔۔۔۔
جہاں اُس کا قصور پوچھے جانے بنا ہی اُسے مجرم ٹھہرا دیا جائےگا۔۔۔۔
جہاں اُس کی قسمت کے سیاہ کاغذ اُس کے اپنوں کی بھی زندگی پر اثر دکھائیں گے۔۔۔۔۔۔
اُس کی امی۔۔۔۔۔بابا ۔۔۔۔۔چھوٹی بہن ردا۔۔۔اور بھائی علی ۔۔۔
سب کتنے پریشان ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔امی تو دن رات اُس کی شادی کی فکر میں گھلتی رہتی تھی۔۔۔۔اور جب اُس کی شادی ہوئی تو کتنی پُر سکون ہوگئی تھی مگر اب۔۔۔۔۔
اور بابا ۔۔۔۔۔وہ تو پریشان بھی ہو کر ظاہر نہیں ہونے دیں گے۔۔۔۔خود گھلتے رہے گے اور اُس سے کہے گے۔”۔۔فکرِ نہ کر بیٹا سب ٹھیک ہوجائےگا”
دونوں کو کیسی کیسی باتوں اور نظروں کا سامنا کرنا پڑیگا۔۔۔۔کیوں کے جس سوسائٹی کا وہ حصہ تھی وہاں ایک لڑکی کا طلاق شدہ ہونا معیوب نہیں قابلِ ذلت سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔۔اُس لڑکی کو سر اٹھا کر جینے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔۔۔۔۔
پھوپھو تو پہلے ہی ناراض تھی۔۔۔۔اپنے بیٹے کی شادی اس سے کروانے پر بضد تھیں۔۔۔۔۔مگر بابا راضی نہیں تھے کیوں کے انس کی فطرت اور عادتوں سے اچھے سے واقف تھے۔۔۔۔۔تبھی جب شہیر کا ذکر ہوا تو اُنہوں بنا وقت لگائے حامی بھر دی ۔۔۔۔۔اور اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی کہ وہ طلاق شدہ تھا۔۔۔۔کیوں کے اُنہیں انس کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہنا کسی صورت منظور نہیں تھا۔۔۔۔
بہت سادگی اور خاموشی سے اُس کا نکاح ہوا تھا اور پھوپھو کو خبر تک نہیں دی گئی تھی۔۔۔۔مگر وہ جانتی تھی کے اُس کی رخصتی کے بعد اُنہوں نے ضرور گھر آکر خوب ہنگامہ کیا ہوگا امی اور بابا کو بہت پریشان کیا ہوگا۔۔۔۔۔
اب اُس کی واپسی پر بھی خود سنائیں گی۔۔۔۔اُس پر ہنسیں گی ۔۔۔۔۔۔
شہیر سے اس کی شادی نے اُس کی سب سے عزیز دوست جزا کو بھی اُس سے دور کر دیا تھا ۔۔جو اُس سےاس بات پر کب سے ناراض بیٹھی تھی کہ وہ شہیر سے شادی کے لیے راضی ہی کیوں ہوئی تھی ۔۔۔
اُس کے پاس کوئی نہیں تھا جس کے آگے وہ اپنا دل ہلکا کرتی ۔۔۔
تنگ گلی کے باہر ہی رکشا رک گیا اور رکشے والے نے خود اُسے مخاطب کرکے احساس دلایا تو و بے دلی سے نیچے اتری اور مرے مرے قدموں سے اندر کی اور بڑھی۔۔۔۔۔
بیس قدم کی دوری پر ہی وہ چھوٹا سا گھر تھا جس کا وہ سکون برباد کرنے آئی تھی۔۔۔اپنے گھر والوں کی یہ رات اور کئیں اگلے راتیں پریشانی اور فکر کی نظر کروانے آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے تک پہنچ کر بھی اُس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کے ہاتھ بڑھا کر دستک دے۔۔۔۔دل کہہ رہا تھا کہ لوٹ جائے مگر کہاں۔۔۔۔۔۔
نور اور شہیر کی کہانی کا تو ایئرپورٹ پر ہی اختمام ہوچکا تھا۔۔۔۔۔
اُس کے تو تمام راستے ہی بند تھے۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔۔اکثر جب سب راستے بند ہوجاتے ہیں تو ایک نیا راستہ کھلتا ہے۔۔۔جو راہ اور سفر دونوں بدل دیتا ہے۔۔۔۔اور نور شاید زندگی کے اُسی موڈ پر تھی۔۔۔۔
اِختمام کے دوسرے معنی ہوتے ہے نئی شروعات
“Every end is a new beginning ۔۔۔۔”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial