قسط: 5
بابا سائیں
کبیر شاہ کے منہ سے یہ اواز سرگوشی کے مانند نکلی تھی
کبیر سیدھا ان کی طرف بڑے اور ان کے قدموں میں بیٹھ گیا
جب کہ اپنے بیٹے کو یوں اپنے قدموں میں بیٹھا دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہوا تھا
سلطان شاہ نیچے کو جھکا اور کبیرشاہ کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا
کبیر شاہ کی انکھوں سے انسو بہنے کو بے تاب تھے
جبکہ پیچھے کھڑی سندس نے تو رونا بھی شروع کر دیا تھا
سلطان شاہ نے کبیر شاہ کو اپنے گلے لگا لیا اور کچھ لمہو تک ویسے ہی کھڑے رہے
سلطان شاہ نے کبیر شاہ کو اپنے اپ سے جدا کیا اور اس کے چہرے کی طرف دیکھا
جو اپنے انسو روکنے کی کوشش میں سرخ ہو رہا تھا
بابا مجھے معاف کر دیں
کبیر شاہ کے منہ سے صرف اتنے ہی الفاظ نکلے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا
کبیر شاہ جس نے دل کو سخت کر رکھا تھا
کہ اس کے بابا سائیں نے اس کی محبت کی قدر نہیں کی
وہ کبھی اپنی حویلی واپس لوٹ کے نہیں جائے گا
اپنی بیوی کے فورس کرنے پر حویلی آیا
اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ جو اس کی جدائی میں نڈھال سا ہو گیا تھاپھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا
بابا مجھے معاف کر دیں
اس کے منہ سے ایک دفعہ پھر وہی الفاظ نکلے
جیسے وہ صرف ان سے معافی کا طلب گار تھا
اس کی بات سن کر سلطان شاہ حوش میں ایا
جو اس کے چہروں کے خد و خیال میں گم ہی ہو گیا تھے جسے اپنی برسوں پرانی پیاس کو مٹانا چاہتا ہوں اس کو دیکھ کر
سلطان شاہ جو جذبات میں بی کر کبیر شاہ کو گلے لگا چکا تھا اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا
کبیر شاہ اج تم اتنے سالوں بعد واپس کیوں ائے ہو
جب جاتے ہوئے ہمارا نہیں سوچا تو واپس کیا سوچ کر ائے ہو اگر تمہیں میری جائیداد میں سے اپنا حصہ اپنی جائیداد چاہیے تو تم فکر نہ کرو ہم اج ہی تمہارے حصے کی جائیداد تمہارے نام لگوا دیں گے
اب تم جا سکتے ہو سلطان شاہ یہ کہتے ہیں مڑا تھا جب کبیر شاہ نے پھر سے پکارا
بابا سائیں بات تو سن لے
کیا بات سنو میں کبیر شاہ کیا بات سن اج اتنے سالوں بعد تم کیوں اگئے جب اتنے سال گزار لیے تھے تو باقی کی زندگی بھی گزار لیتے
ابھی سلطان شاہ یہ بات کر ہی رہے تھے جب پیچھے سے انہیں اپنی بیوی کی اواز ائی جو شاید خدا بخش کے کہنے پر نیچے ائی تھی
جبکہ کبیر شاہ اپنی ماں کو دیکھتا سیدھے ان کی طرف بڑھا اور انہیں گلے لگا لیا
کہاں چلے گئے تھے تم ایک دفعہ رکتے تو صحیح اور تم گئے بھی تو کبھی پلٹ کر حویلی نہیں آئے اور سوچا ہی نہیں کہ تمہارے بغیر تمہاری ماں کس حال میں جی رہی ہوگی
زندہ بھی ہوگی یا مر گئی ہوگی ذرا خیال نہیں ایا
ماں سائیں ایسی بات تو نہ کرے
کبیر شاہ ان کی بات سنتا تڑپ لو کر ان کے سینے لگا تھا
جب سلمہ بیگم ( سلطان کی بیوی) کچھ فاصلے پر کبیر کے پیچھے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو چہرہ نیچے جھکائے رونے میں مصروف تھی
انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنی طرف بلایا
سندس چلتی ہوئی ماں سائیں کے پاس ائی اور جھک کر ان سے سلام کیا
جبکہ ماں سائیں نے پیار سے سلام کا جواب دیتے اسے بھی اپنے ساتھ لگایا
جبکہ سلطان شاہ یہ سارا معاملہ پاس کھڑے دیکھ رہا تھا
سلمہ بیگم نے ایک آس بھری نظر سے سلطان شاہ کو دیکھا
جبکہ اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتے سلطان شاہ اپنی چادر ٹھیک کرتے وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے
جب کہ پیچھے سلمہ بیگم نے سلطان شاہ کے جانے کے بعد ان کو دوبارہ اپنے گلے لگایا اور انہیں حویلی کے اندر لے گئی
قلب جب کلاس روم میں داخل ہوا تو تمام سٹوڈنٹ نے اسے سلام بلایا
سلام کا جواب دیتے ہوئے ایک نظر پوری کلاس کو دیکھا تو اسے کچھ عجیب لگا
اور اس نے غور کیا تو اسے معلوم ہوا کہ قندیل اج کلاس روم میں موجود نہیں ہے جبکہ ماہی اپنے ڈیکس پر ہی موجود تھی جس پہ وہ اور قندیل دونوں اکٹھا بیٹھا کرتی تھی
اس نے ماہی کو دیکھتے ہوئے کچھ انکھوں سے کچھ اشارہ کیا
جس کا مطلب سمجھتے ہوئے ماہی نے اسے گھور کر دیکھا
اس کے گھور کے دیکھنے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر انکھوں سے وہی اشارہ کیا
جس کے جواب میں ماہی نے اسے اشارے سے بعد میں بتانے کا کہا
قلب اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے لیکچر دینا سٹارٹ کر چکا تھا جبکہ اس کا دھیان ابھی بھی مکمل قندیل کی طرف تھا
آرمی سپیشل ٹریننگ میں انہیں ایک خاص قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہے جن میں انکھوں سے اشارے کرنا اور سمجھنا سکھایا جاتا ہے
اور یہ خاص طور پر سگرٹ ایجنٹ کو سکھایا جاتا ہے کہ مشکل وقت میں اپنے ساتھی کو بول کے نہ سہی انکھوں کے اشارے سے اپنی بات سمجھا سکیں
انکھوں سے اشارے کرنا بھی کوئی عام اشارے نہیں ان اشاروں میں سیکرٹ کوڈ موجود ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں
کلاس ختم ہونے کے بعد قلب جب گلاس سے باہر نکلنے لگا تو اس نے ماہی کو اشارہ کیا کہ وہ باہر آ کے اس کی بات سنیں
جب کہ ماہی اس کے اشارے کا مطلب سمجھتے اس کے پیچھے ہی کلاس روم سے باہر نکلی
قلب یونی کی کوریڈور میں ایک کونے میں کھڑا ہو گیا جب کہ وہی اس کے سامنے آکے کھڑی ہوئی
ماہی حقیقت میں 26 سال کی تھی مگر اپنی ڈریسنگ اور اپنے لکس کی وجہ سے وہ ابھی بھی 19 ; 20 سال کی کوئی لڑکی لگتی تھی
یس سر یو ہیو اینی پرابلم
ماہی نے بالکل پروفیشنل انداز میں اس سے گفتگو کا اغاز کیا
نو ای نو پرابلم بٹ
ائی وانٹ ٹو اسک یو سمتھنگ
یس سر
ماہی نے اس کی بات کو سنتے بس اتنا ہی کہا کہ وہ اپنی بات کا اغاز کرے
وہ میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا کہ…….. …….
یس سر ٹیل می پلیز
مس ماہین کیا اپ کو معلوم ہے کہ مس قندیل اج کیوں نہیں ائی
جبکہ دوسری طرف ماہین جو اس کو اتنا سیریس دیکھ کر خود بھی تھوڑی پروفیشنل ہوئی تھی اس کی بات سننے کے بعد حیران ہوئ تھی
نہیں سر مجھے اس کے بارے میں نہیں پتا مجھے بھی یونی ا کر پتہ چلا کہ وہ نہیں ائی کیوں سر کوئی مسئلہ ہو گیا ہے
نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے پر کیا تمہارے پاس اس کا کانٹیکٹ نمبر ہے
یس سر
میرے پاس ہے
کیا اپ نمبر مجھے دے سکتی ہیں
جس کے سر قلب شاہ نے کام کے علاوہ ان سے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی اج اتنی بے تکی باتیں کرتا دیکھ بے ہوش ہونے کو تھی
سر میں سمجھی نہیں اپ کہنا کیا چاہتے ہیں ماہین کو لگا اس نے کچھ غلط سن لیا ہے اس لیے دوبارہ پوچھا
اس میں اپ کو کیا سمجھ نہیں ا رہا میں کہہ رہا ہوں مس قندیل کا نمبر مجھے دیجیے
ایک وہ پہلے ہی اپنے دل کی حالت سے بے چین تھا اوپر اس کے سوالات سے مزید غصہ دلا رہے تھے
ی ی ی یس سر میں ابھی دیتی ہوں
ماہین جس نے قندیل سے دوستی کرنے کے بعد دوسرے ہی دن اس کا کانٹیکٹ نمبر لے لیا تھا
سر کے غصہ کرنے پر جلدی سے قندیل کا کانٹیکٹ نمبر سر کو دے دیا
جانتی تھی قلب شاہ کو جب غصہ اتا ہے تو کسی کو نہیں دیکھتا کہ سامنے لڑکی کھڑی ہے یہ لڑکا کھڑا ہے بس اپنا غصہ نکال دیتا ہے
اوکے ڈن
نوٹ کرنے کے بعد قلب کے منہ سے صرف یہی الفاظ نکلے
جس کو سن کر ماہین کو سمجھ اگئی کہ سر اسے جانے کے لیے کہہ رہے ہیں وہ مڑی ہی تھی جب اس سے قلب شاہ کی پھر سے اواز سنائی دی
مس مین ذرا میرے ایک بات سنیے گا
یس سر
کیا آپ مس قندیل کو فون کر کے یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ اج کیوں نہیں ائی
ماہی نے کنفیوز سی حالت میں سر ہاں میں ہلایا
ہاں ٹھیک ہے معلوم کرنے کے بعد مجھے بھی بتا دینا
اس کی بات سنتے خوشی خوشی اتنا کہتے وہ پلٹ گیا جب کہ ماہین پیچھے حران پریشان اس کی کمر کو دیکھ رہی تھی
یہ سر کو اج کیا ہو گیا ہے
ماہین کو اپنے بہت پاس سے اواز ائی
اس نے پلٹ کر دیکھا تو حارث اس کے پیچھے ہی کھڑا تھا
کہ تم چھپ کر ہماری باتیں سن رہے تھے
ماہین نے تفیششی انداز میں سے پوچھا
ہاں کچھ کچھ
اس نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا
اپ یہ حرکت کب چھوڑیں گے اتنے بڑے افسر ہو کر اپ یو پھاپھے کٹنی عورتوں کی طرح ہماری باتیں سن رہے تھے
تم مجھے عورت کہہ رہی ہو تم سے ایک فٹ اونچا ہینڈسم مرد تمہیں عورت لگ رہا ہے
حارث کو تو اس کی بات سن کر جسے صدمہ ہی لگ گیا تھا
میں نے تم کو پھاپھے کٹنی بھی کہا ہے کیا وہ تم کو سنائی نہیں دی
سنائی دیا ہے اور وہ میرے لیے اتنا اہم. نہیں ہے
حارث نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا
خیر مجھے فرق نہیں پڑتا کہ تم نے کیا سنا ہے پر مجھے سر سچ میں کچھ عجیب لگ رہے ہیں جو کبھی لڑکیوں کی طرف پلٹ کر دیکھتے بھی نہیں تھے اج کسی لڑکی کے بارے میں پوچھ رہے تھے سٹرینج
وہ اس کو ایک نظر دیکھ دیکھتی دوبارہ اپنی کلاس روم کی طرف بڑھ گئی تھی
جبکہ پیچھے وہ اس کے کمر کو گھور رہا تھا جس میں اج اس عورت کہہ دیا تھا
لگتا ہے مجھے جلد ہی رخصتی کروانی پڑے گی تاکہ اسے معلوم ہو کہ میں عورت ہوں یا مرد
حارث ماہین کی خالہ کا بیٹا تھا ان کا نکاح دو سال پہلے ان کے ارمی جوائن کرنے سے پہلے ہو چکا تھا
ودونوں ایک ہہ سکیل پر تھے جبکہ قلب ان سے ایک سکیل اوپر تھا
یہ نکاح سراسر حارث کے فورس کرنے پر ہوا تھا
جب کہ دوسری طرف قندیل جس کو سر کی اج کی حرکت کی وجہ سے گھر انے کے بعد تیز بخار ہو گیا تھا بستر سے ہل بھی نہیں پا رہی تھی
اس لیے اگلے دن یونیورسٹی جانا ہے کینسل کر دیا تھا اور قلب سےبھی ایسے کچھ ڈر محسوس ہونا شروع ہو گیا تھا
اس کی ماما اس کو ٹائم سے میڈیسن اور دودھ پلا کر جا چکی تھی جبکہ اب وہ بستر پر لیٹی کروٹ پہ کروٹ بدل رہی تھی
اسے بار بار اپنے گالوں پر قلب شاہ کا لمس محسوس ہو رہا تھا
جس کو مٹانے کے لیے نہ جانے کتنی دفعہ وہ اپنا منہ دھو چکی تھی
اففففف اللہ میں کیا کرو
جب وہ اس لمس کو خود سے دور نہ کر سکی تو اٹھ کر بیٹھ کر دوبارہ رونا شروع ہو گئی
میں کیا کروں ایسا کہ یہ لمس مجھ سے دور ہو
جآئے
اچھا خاصا رونے کے بعد وہ دوبارہ لیٹ گئے اور پھر کب اسے نیند اگئی اسے معلوم بھی نہ پڑا
( ویسے یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ رونے کے بعد نیند بہت سکون والی جاتی ہے )
کیا تمہیں تمہیں معلوم ہوا کہ مس قندیل اج یونیورسٹی کیوں نہیں ائی
چھٹی ہونے کے بعد وہ سیدھا ماہین کی طرف آیا تاکہ اس سے معلوم کر سکیں کہ قندی کو کیا ہوہا ایسا اس کے ساتھ کیا ہوا ہے جو اج وہ یونیورسٹی نہیں ائی
یس سر میں نے کی تھی مس قندیل سے بات اس کو بہت تیز بخار ہے کے
جس کی وجہ سے انہیں نہیں ا سکی
جب کہ قلب اس کی اتنی سے بات سنتے کچھ حد تک پریشان ہو گیا تھا جب اسے اپنی کل والی.
حرکت یاد ائ جب اس نے مس قندیل کے گال کو چھوا تھا
تو اسے معلوم ہوا کہ قندیل کو بخار کیو ہوا ہے
اوکے مس ماہین اپ جا سکتی ہیں
اتنا کہنے کے بعد وہ پلٹ کر اپنی گاڑی میں بیٹھا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو
وہ اج پھر اس چھوٹے سے کمرے میں موجود تھے جس کی دیواریں سیاہ اور کمرہ سرخ روشنی سے سجھا ہوا تھا
مگر اج اس کے سامنے ایک کی جگہ دو لوگ بلیک ہڈ پہنے کھڑے تھے ایک قدم میں دوسری سے تھوڑا چھوٹا معلوم ہوتا تھا
کچھ معلوم ہوا کیس کے بارے میں سامنے شیئر پر بیٹھے شخص نے دونوں سے سوال کیا
یس سر
سامنے کھڑی دونوں لوگوں میں سے ایک نے جواب دیا
شیئر پر بیٹھے شخص نے انکھ کے اشارے سے بولنے کی اجازت دی
سر اس یونی میں کچھ تو گڑبڑ ہے کوئی بھی پرانا ٹیچر موجود نہیں جو اج سے سات سال پہلے ہوا کرتے تھا
اور ایک بات سر اس یونی کے تمام ہسٹری کو ایک کمرے میں لاک کیا گیا ہے اس کی طرف ہے جانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں مجھے لگتا ہے ہمیں ثبوت وہی ملیں گے
سامنے کھڑے دونوں لوگو میں سے چھوٹے قد والے نے یہ انفارمیشن دی
ایک اور بات سر
اس یونی کا جو پہلے پرنسپل تھاجب اس نے ریٹائرمنٹ لی تو اس کے پاس جتنی دولت تھی وہ اس کی سیلری سے تین گنا زیادہ تھی مجھے لگتا ہے اس سارے معاملے میں پرنسپل بھی برابر کا ملا ہوا تھا
اس کی بات سنتے شیئر پہ بیٹھے شخص نے سر ہلایا جبکہ پاس کھڑے شخص نے اسے حیرت بھری میں دیکھا جیسے کہنا چاہتا ہو تم نے یہ انفارمیشن کب لی
کے ساتھ کھڑے شخص نے اس کی نظروں کو ملک نظر انداز کرتے ہوئے سامنے بیٹھے شخص کی طرف دیکھا
اوکے تم اس ہسٹری روم میں جا کر انفارمیشن حاصل کرنے کی کوشش کرو اگر تم سے نہ ہوا تو میں جاؤں گا
اس کی بات سنتے سامنے دونوں شخص نے سر ہی لایا اور کمرے سے باہر نکل گئے
جبکہ پیچھے وہ اپنی رولنگ چیئر پر بیٹھا آنکھیں بند کر گیا
جب اسے اچانک کچھ یاد ایا اس نے جھٹ سے اپنی انکھیں کھولی اور اپنی چیئر سے اٹھ کھڑا ہوا دروازے سے نکلتا اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا
قندیل جس کی اج یونی نہ جانے کی وجہ سے طبیعت کچھ بہتر تھی گڈ پر لیٹی اپنی نیند کی مزے لوٹ رہی تھی
جب اس کی کھڑکی سے کوئی اس کے کمرے میں داخل ہوا اور چلتا چلتا قندیل کے پاس اس کے بیڈ پر بیٹھ گیا
تم کیا چیز ہو اتنی طلب مجھے اج تک کسی چیز کی نہیں ہوئ جتنی مجھے تمہاری ہو رہی ہے
وہ اس سے سوال کرنے کے انداز میں بات کر رہا تھا جیسے وہ ابھی اٹھ لر اس کے تمام سوالوں کے جواب دے دے گی
وہ کافی وقت تک محض اس کے چہرے کو دیکھتا رہا جیسے چہرے کے ذریعے اس کو دل میں اتار لینا چاہتا ہوں
یہ قدرت کی طرف سے تھا یہ اس کی نظروں کو محسوس کرتے ہوئے وہ ہلکا سا کھسمسائ
جب قندیل نے انکھیں کھولی تو اسے ایسا لگا جیسے اس کے پاس کوئی بیٹھا ہے
وہ جلدی سے اٹھ کر بیڈ سے اٹھ کر کچھ قدم دور کھڑی ہو گئی
جب اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی کھڑکی میں کوئی ہے
کچھ دیر بعد وہ جلتی جلتی کھڑکی کے پاس پہنچی تو وہاں کوئی نہیں تھا بس ایسے ایک سایہ سا لہراتا محسوس ہوا
اس سائے کو دیکھتے وہ جلدی سے پیچھے ہوئی اور اپنے بیڈ پر لیٹ کر کمفرٹ اپنے منہ تک اوڈ لیا
جیسے کمفرٹ اوڑھنے سے وہ اس بلا سے بچ جائے گی
کو دیکھتے دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا