آتشِ قلب

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 6

وہ جب صبح اٹھی تو اسے رات کا واقعہ ایک دفعہ پھر سے یاد ایا جب اسے محسوس ہوا تھا کہ اس کے کمرے میں اس کے علاوہ بھی کوئی موجود ہے
اس کا وہم ہے یہی سوچتے ہوئے وہ اٹھی اور نماز کے لیے وضو کر کے نماز پڑھنے کے بعد وہ نیچے کچن میں آی
جہاں اس کی مما اس اس کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی
السلام علیکم مما
اس نے جاتے ہی اپنی ماں کی گال پر پیار کیا اور انہیں سلام بلایا
کیسا ہے میرا بیٹا اٹھ گیا جاؤ جا کر بیٹھو میں تمہارے لیے ناشتہ لے کے اتی ہوں
اوکے مما
اتنے کہنے کے بعد وہ باہر ڈائننگ ٹیبل پر چلی گئی
وہ کھانا کھا ہی رہے تھے جب قندیل نے اپنی مما سے اجازت چاہی
مما کیا اج میں یونیورسٹی جا سکتی ہوں وہ ان سے اجازت لے رہی تھی کیونکہ کل بہت دفعہ کہنے کے باوجود بھی سندس بیگم نے اسے یونیورسٹی نہیں جانے دیا تھا
اس کی بات سننے کے بعد سندس بیگم کچھ ٹائم تک اس کا چہرہ دیکھتی رہی
جو تیز بخار کی وجہ سے بالکل مرجھا سا گیا تھا
نہیں بیٹا اپ اج بھی نہیں جا سکتی ہاں اگر کل تک اپ کی طبیعت ٹھیک ہو گئی تو اپ کل چلے جانا
ماما پر ایسے تو میری پڑھائی کا نقصان ہو رہا ہے
اپ کی صحت سے زیادہ اور اور کوئی چیز ضروری نہیں بہتر ہوگا کہ ہم اس بات پر بحث نہ کریں
اتنا کہنے کے بعد قندیل بالکل چپ سی ہو گئی اور اپنا ناشتہ کرنے لگ گئی
جبکہ سندرس بیگم کا ناشتہ کرنے کے بعد برتن اٹھاتے کچن کی طرف چلی گئی پیچھے قندیل بھی اپنا ناشتہ مکمل کرتی برتن اٹھائے کچن میں رکھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی کیونکہ وہ یونیورسٹی جائے نہ جائے اسسائنمنٹ کی تیاری اس نے کرنی تھی جو اس ہفتے کے اخر میں اس نے ٹیسٹ دینا تھا ابھی وہ پڑھائی کر ہی رہی تھی جب اس کا فون اسے بجتا سنائی دیا اس نے فون ڈھونڈنے کی کوشش کی تو بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر اس سے اپنا فون پڑا ملا
اس نے اگے بڑھ کر فون اٹھایا تو اس پر کوئی ان نون نمبر جگمگا رہا تھا اس نے اسے اگنور کرتے فون سائیڈ پر رکھتے دوبارہ پڑھائی کی طرف متوجہ ہوئی
لیکن وہ زیادہ ٹائم پڑھائی کر نہ سکی کیونکہ کچھ ٹائم بعد فون پھر سے بچنا شروع ہو گیا
اس نے اج تک یوں کوئی ان نون نمبر اٹینڈ نہ کیا تھا پر پتہ نہیں کیوں اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ یہ اٹھا لے اور اسے عجیب سی فیلنگ ا رہی تھی
اپنے خیالوں کو جھٹکتے اس نے فون یس کر کے کان سے لگ رہا ہے
اس نے موبائل کان سے تو لگا لیا تھا مگر وہ پہلے 10 سیکنڈ تک کچھ نہ بولی
جبکہ دوسری طرف قلب جو ایسے اج بھی یونیورسٹی نہ پا کر کچھ غصہ اور کچھ اداس ہوا تھا ڈائریکٹ اس کو فون ہی کر چکا تھا
پہلے 10 سیکنڈ ایسے قندیل کی اواز نہ ائی تو اس نے فون سی ہٹا کر نمبر دوبارہ دکھا
نمبر تو وہی ہے
اس نے دل میں سوچا
ہیلو کیا آپ مس قندیل بات کر رہی ہیں
میں قندیل شاہ بات کر رہی ہوں پر اپ کون ہیں
قندیل اپنا نام یوں سن کر تھوڑی حیران ہوئ
میں پروفیسر قلب بات کر رہا ہوں اس نے بڑے ہی دل نشین انداز میں کہا
جبکہ دوسری طرف قندیل پروفیسر قلب کا نام سننے کے بعد کچھ ٹائم تک حیران و پریشان فون کو دیکھتی رہی کیا سچ میں پروفیسر شاہ نے ایسے فون کیا ہے پر کیوں
ہیلو مس قندیل کیا اپ مجھے سن سکتی ہیں ہیلو
کچھ ٹائم جب قلب کو اس کی اواز نہ ائی اس نے دوبارہ سے اسے پکارا اسے لگا شاید سگنل ڈراپ ہونے ہو گئے ہے
یییس سر
قندیل نے پریشانی سے حقلاتے ہوئے جواب دیا
او صحیح مس قندیل کیا میں جان سکتا ہوں کہ اپ اج یونیورسٹی کیوں نہیں ائی
سر وہ مجھے کل تیز بخار ہو گیا تھا جس کی وجہ سے میری مما نے مجھے یونیورسٹی نہیں انے دیا
ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی جب اسے اپنے کمرے کا دروازہ کھولتا محسوس ہوا
تو اس کے تائے کا بیٹا سفیان دروازے کے پاس کھڑا تھا
سفیان بھائی قندیل نے حیرانگی سے پکارا اپ میرے کمرے میں کیا کر رہے ہیں اور اپ کو میرے کمرے میں انے کی اجازت کس نے دی
کیا مطلب ہے تمہارا قنڈیل تم کس لہجے میں مجھ سے بات کر رہی ہو
نہیں سفیان بھائی میرا مطلب وہ نہیں تھا پر اپ کو یوں میرے کمرے میں نہیں انا چاہیے تھا
اوکم اون قندیل اس ایڈوانس زمانے میں تم اس چھوٹی سی بات کو لے کر بیٹھ گئی
وہ یہ بات کرتے ہوئے بہت ہی بے تکلفی سے اس کے بیڈ پر اس کے پاس بیٹھ گیا
جبکہ اس کے یوں پاس بیٹھنے پر قندیل کرنٹ کھا کر بیڈ سے کچھ قدم کے فاصلے پر کھڑی ہوئی
مجھے معلوم ہے یہ بہت ایڈوانس زمانہ ہے پر میں ایڈوانس نہیں ہوں اپ عزت کے ساتھ اس کمرے سے جائیں گے یا میں ماما کو بلاؤں
چلا جاتا ہوں چلا جاتا ہوں بس میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں
جی بولیں جلدی جلدی
قندیل نے اپنے سینے پر بازو لپیٹتے ہوئے کہا
تم میرے رشتے کے لیے ہاں کیوں نہیں کر رہی ہم کتنی دفعہ تمہارے رشتے کے لیے ا چکے ہیں کیا تم کسی اور سے محبت کرتی ہو بتا کیوں نہیں دیتی
اپ کی ہمت بھی کیسی ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی اپ ہوتے کون ہے مجھ سے ایسے بات کرنے والا نکلے میرے کمرے سے
کیا تم سچ میں کسی سے محبت کرتی ہو اس نے قندیل کو دیکھتے پوچھا
نہیں میں کسی سے محبت نہیں کرتی اور نہ ہی میں اپ سے شادی کروں گی اپ کو شرم انی چاہیے اپنے سے 15 سال چھوٹی لڑکی کے لیے رشتہ بھیجتے ہوئے
نہ اپ کوئ کام کرتے ہیں نہ کچھ باپ کے پیسوں پر عیاشی اور اج تک کچھ اچھا بھی کیا ہے اپ نے
میں اپ کی طرح عیاش نہیں ہوں ٹھیک ہے نا اور نکلے میرے کمرے سے نہیں تو میں ابھی مما کو بلاتی ہوں
قندیل تم میرے رشتے کے لیے ہاں کر دو ورنہ میں تمہارے ساتھ بہت برا پیش اؤں گا میں تمہیں بتا رہا ہوں
رکیں اپ ایسے نہیں جائیں گے مجھے مما کو بلانا ہی پڑے گا
چلا جاتا ہوں اور میں تمہیں بتا رہا ہوں
ہاں کر دو ورنہ یہ تمہاری صحت کے لیے بالکل بھی اچھا نہیں ہوگا
وہ اسے اخری دھمکی دیتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا
جبکہ اس کے سامنے جو بہادر بن کھڑی تھی اس کے جانے کے بعد رونا شروع ہو گئی
یہ تب سے ہی ہو رہا تھا جب سے اس کا باپ شہید ہوا تھا تب سے ہی اس کا تایا ابو اور اس کا بیٹا انہیں ایسے ہی ٹوچر کر رہے تھے ہر مہینے میں چار چار دفعہ چکر لگاتے اور انہیں یوں ہی ٹچر کرتے
جبکہ جلد بازی میں قندیل جو کال کٹ کرنا بھول گئی تھی قلب ان کے درمیان ہوئی تمام باتیں سن چکا تھا
اور قندیل کو یو روتا دیکھ ایسے غصہ ا رہا تھا شدید غصہ اس سفیان نامی شخص پر
اس کا دل کر رہا تھا کہ ابھی وہ اس بندے کو اس دنیا سے ختم کر دے
قندیل کو جب وہ روتا نہ سن سکا تو اس نے کال کٹ کر دی اور حارث کو فون کیا
♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥
پہلو حارث
میں قلب بات کر رہا ہوں
معلوم ہے مجھے تمہارا ہی نمبر ہے تو تم ہی بات کرو گے نا
اس وقت میں مذاق کے موڈ میں بالکل بھی نہیں ہوں
جی ادھے گھنٹے میں مس قندیل کی پوری تفصیل چاہیے اس کی پوری جنم کنکریاں نکالو
قلب یہ تمہیں کیا ہو گیا تم اس قندیل کے پیچھے اتنا کیوں جا رہے ہو
کبھی اسے فون کر رہے ہو کبھی اس کا نمبر لے رہے ہو کبھی اس کے بارے میں پوچھ رہے ہوں ہم یہاں مشن پہ ائے ہیں نہ کہ کسی لڑکی کا پیچھے کرنے
وہ شاید ایسے اس کا مشن یاد دلانا چاہا تھا
مجھے معلوم ہے کہ ہم یہاں کیوں ائے ہیں
تمہیں مجھے زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے جو تم سے کہا وہ کرو
ادھے گنٹے کے اندر مجھے مس قنڈیل کی پوری تفصیل دو اتنا کہنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا
جبکہ دوسری طرف حارث اپنے کام میں لگ گیا تھا اسے معلوم تھا قلب نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا
وہ اپنی بات سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا اسی لیے بھلائی اس میں ہے کہ وہ اس کی بات مان جائے
♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥
ماضی
اسے اس حویلی میں ائے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا تھا پر ایک ہفتے میں سلطان شاہ نے اس سے بات کرنے کی ایک بھی کوشش نہیں کی تھی وہ ہر ممکن کوشش سے ان کو منانے کی کوشش کر رہا تھا پر وہ مان ہی نہیں رہے تھے
لیکن اس ہفتے کے دوران سندس اور سلمہ بیگم میں اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی
اسے اگلے ہفتے تک شہر واپس بھی جانا تھا کیونکہ وہ ایک یونیورسٹی کا لیکچرار تھا انگلش کا پروفیسر وہ زیادہ چھٹیاں نہیں کر سکتا تھا اسے ایک ہفتے کے اندر اندر ہی سلطان شاہ کو منانا تھا
اسی شام جب وہ حویلی کا ایک چکر لگا رہا تھا جب وہ سلطان صاحب کے کمرے کے پاس سے گزرا تو ان کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا
مگر وہ کمرے میں موجود نہیں تھے جبکہ سلمہ بیگم تو سندس اور چندہ کے ساتھ کچن میں تھی شام کے کھانے کے لیے
وہ ان کے کمرے کے اندر داخل ہوا تو سٹڈی روم کی طرف دیکھا جس کا دروازہ کھلا تھا
جب وہ سٹڈی روم میں داخل ہوا تو سامنے رولنگ چیئر پر سلطان شاہ ہاتھ میں کوئی البم لیے بیٹھےتھے مگر ان کا چہرا دوسری طرف تھا
اس نے اگے ہو کر وہ البم کو دیکھا تو اس میں صغیر شاہ اور کبیر شاہ کی بچپن کی تصویر تھی
اسے یہ دیکھ کر اپنے باپ پر ٹوٹ کر پیار ایا وہ اگے بڑھا اور سلطان کے کندھوں پر ہاتھ رکھتا اگے کو جھکا
اور ان چہرے کو بہت غور سے دیکھنے لگا جو انکھیں بند کیے بیٹھے تھے
وہ اس کے چھونے کو محسوس کر چکے تھے لیکن انکھیں پھر بھی نہیں کھولی تھی
بابا سائیں
اس نے بہت ہی محبت سے اپنے باپ کو پکارا
جبکہ اس کی آواز پر سلطان شاہ نے ہلکے سے اپنی انکھیں کھولی
ان سے اخری سرخ ہو رہی تھی جیسے وہ بہت ہی گہری نیند سے اٹھے ہو
انہوں نے انکھیں تو کھول لی تھی مگر اس کی پکار کا جواب نہیں دیا
مجھے معاف کر دیں اور کتنا ٹائم ناراض رہیں گے ناراضگی سے اج تک کس کا بھلا ہوا ہے
پلیز مان جائیں اپ تو مجھے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے اور اب اپ کیوں نہیں مان رہے وہ بات کرتے ہوئے ان کے قدموں میں بیٹھ گیا
جب کہ وہ بھی ناراضگی کو شاید زیادہ لمبا نہیں کھینچنا چاہتے تھے اس لیے بہت ہی شفقت سے کبیر شاہ کے سر پر ہاتھ رکھا شاید وہ تھک گئے تھے خود سے اپنی انا سے
سلطان شاہ نے اپنے منہ سے تو کچھ نہیں کہا مگر اس کے سر پہ ہاتھ رکھنے کے بعد وہ کھڑے ہوئے اور اس کے کھڑے ہونے کا انتظار کیا
جبکہ ان کے یوں کھڑا دیکھ کر کبیر کبھی کھڑا ہوا
چلیں کھانے کا ٹائم ہو گیا ہے ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے پہلے ہی بہت زیادہ دیر ہو گئی ہے
سلطان شاہ اتنا کہنے کے بعد اگے بڑھ گئے
جبکہ کبیر ان کی بات کا مطلب سمجھ رہا تھا
جو شاید کھانے کی بات کر رہے تھے یہ شاید وہ اپنی زندگی میں ہوئے اس واقعہ کو بات کر رہی تھے جس کو سمبھلتے سمبھلتے پانچ سال کا عرصہ لگ گیا
وہ جب کھانے کی میز پر بیٹھے تو سربراہی کرسی پر سلطان صاحب جب کہ ان کی دائیں طرف سلمہ بیگم جبکہ سلطان شاہ کی بائیں طرف سگیش شاہ ان کے ساتھ زندہ ان کی بیوی چندہ اور چندہ کے ساتھ ان کے پانچ سال کا بیٹا سفیان
جب کہ دائیں طرف سلمہ بیگم کے ساتھ کبیر شاہ اور اس کے ساتھ اس کی بیوی سندس
فرزانہ بیگم جو اپنی دونوں بیٹیوں کو پیدا کرتے ہی اس دنیا سے چلی گئی تھی ان کے شوہر کا بھی دو سال پہلے انتقال ہو چکا تھا
جب کہ کبیر کے شادی کرنے کے لیے دو سال زندہ کی شادی ہو گئی تھی ستارہ کی شادی اس کے تایا ابو کے بیٹے کے ساتھ ہو گئ تھی
شروع شروع میں تو ستارہ نے بہت ولولہ مچایا
مگر وقت کے ساتھ ساتھ اسے بھی اپنے ہمسفر سے محبت ہو گئی اور وہ اپنے گھر میں ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی ہے ستارہ کے پاس ایک سال کا ایک بیٹا ہے مگر اس واقعہ کے بعد وہ حویلی کم ہی ایا کرتی تھی
کھانے کے دوران جب کبیر شاہ اور سلطان شاہ کو اپس میں باتیں کرتے ہوئے سب نے دیکھا تو سب کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ اگئی مطلب کہ وہ کبیر شاہ سے مان گئے ہیں
مزید ایک ہفتہ اسی چہل پہل میں گزر گیا کسی کو ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا مگر کبیر شاہ اور سلطان شاہ کے اندر تمام ناراضگی ختم ہو گئی تھی جس کی پوری فیملی کو بہت خوشی تھی
آجانہوں نے واپس شہر جانا تھا سلمان شاہ تو کبیر شاہ کو اپنے سے دور کرنا نہیں چاہتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ کبیر کا جانا ضروری ہے اس لیے اسے روکا بھی نہیں تھا
سلمی بیگم بہت خوش تھی کہ ان کے بیٹا اور ان کےشوہر کے درمیان تمام معاملات پہلے جیسے ہو گئے ہیں
♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥
اج ان کو واپس شہر ائے پورا مہینہ گزر گیا تھا
مگر کبیر شاہ کو پتہ نہیں کیوں لگتا تھا جیسے اس پر نظر رکھی جا رہی ہے
♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥
کیا تمہیں ہسٹری روم سے کچھ معلوم ہوا سامنے حوڈ پہنے کھڑے شخص نے پوچھا
یس سر
میں گئی تھی اس روم میں مگر مجھے ہمارے لائق کوئی ثبوت نہیں ملا پر مجھے وہاں ایک لوکر نظر ایا جس کو فنگر پرنٹ لوکر سے لاک کیا گیا تھا مجھے لگتا ہے ہمارے ثبوت وہی ہیں
سنگل پرنٹ لاکر ہممم
تم دونوں نے کچھ سوچا کہ ہم اس لوکر کو کیسے کھولیں گے
یس سر
مجھے یہ انفارمیشن ملی ہے کہ اس یونی کا پرنسپل اگلے ہفتے ایک کلب جا رہا ہے یہاں ہر طرح کے برے کام ہوتے ہیں وہاں شراب نوشی بھی کی جاتی ہے مجھے لگتا ہے جب وہ شراب کرنے میں پوری طرح ڈوبہ ہوگا تو ہمیں اس کی فنگر پرنٹ مل جائیں گے
اوکے اتنا کہنے کے بعد ہڈ پہنے شخص نے اپنے قدم باہر کی طرف رکھے
جب اسے پیچھے سے اواز ائی
سر مگر اپ نے بتایا نہیں یہ کام ہم دونوں میں سے کون کرے گا
یہ کام تم دونوں میں سے کوئی نہیں کرے گا یہ کام میں خود کروں گا اخر مجھے بھی تو کچھ کرنا چاہیے تم دونوں کب تک اتنے کام کرو گے کچھ ریسٹ لے لو
کتنا کہنے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکل گیا
جب کہ پیچھے کھڑے حارث نے ماہین کا ہاتھ پکڑا
کل تم سر کے جانے کے بعد بہت بول رہی تھی اب بولو حارث ارام سے ہم ڈیوٹی اورز میں ہیں
جس کی ڈیوٹی کرنی ہے وہ تو چلا گیا اب ڈیوٹی کیسی ہے ڈیوٹی اورز کیسے
اتنا کہنے کے بعد وہ مہین کو دیوار سے پن کر چکا تھا
حارث میں تمہیں کہہ رہی ہوں نا مجھ سے دور………..
ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ وہ اس کے ہونٹوں پر اپنے لب رکھ چکا تھا
اس کی شدت کو محسوس کرتے ماہی کی ٹانگیں کانپنے لگی تھی
جب کہ وہ اپنے اپ کو اچھی طرح سیراب کرتا ہے اس سے پیچھے ہوا
جب کہ ماہی اس کے پیچھے ہونے پر لمبے لمبے سانس لیتی اپنے سانس کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی تھی
حارث تم کتنے جلاد ہو
اب بولو ماہی بیبی ائندہ میرے ساتھ چالاکی کرنے کی کوشش کرو گی بیوی ہو میری اتنا یاد رکھا کرو اگر تمہیں بھولی تو مجھے یاد دلانا اچھی طرح اتا ہے
اتنا کہنے کے بعد وہ اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھتا ہوئے اس کا ہاتھ پکڑے اس کمرے سے باہر نکل گیا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial