قسط 2
رئیسہ بیگم شہیر سے بات نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اور اُن کی ناراضگی سے وہ بے حد پریشان تھا ۔۔۔۔۔لیکِن چاہ کر بھی اتنی آسانی سے ایک نئے رشتے کو قبول کر پانا اُس کے اختیار میں نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
وحیدہ بیگم نے بھی اپنی جانب سے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کے وہ ایک بے وفا لڑکی کی وجہ سے اپنی اور ماہ نور کی زِندگی کو متاثر نہ ہونے دے۔۔۔
لیکِن جس کمرے میں اُس کی محبت کے بے شمار لمحے قید تھے جہاں کی ہر شے اُس کی جذباتیت سے آگاہ تھی۔۔۔جہاں اُس نے عائزہ کی یادوں کو ہمیشہ زندہ رکھا تھا اُس مقام پر کِسی اور کی موجودگی اُس کے لیے ناقابل برداشت تھی۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے اب تک اُس لڑکی کا چہره بھی نہیں دیکھا تھا نہ کبھی دیکھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔
اُس کے لیے وہ بس ایک شو پیس کی طرح تھی
جسے وہ اپنے کمرے میں سجا کر بے فکر ہو چکا تھا
اُس نے دلّی جانے کا فیصلہ کیا تھا اور یہی بتانے کے لیے رئیسہ بیگم کے پاس آیا تھا ۔۔
اُنہوں نے اُسے ایک لفظ بھی نہیں کہا حلانکہ ہر بار وہ جاتے ہوۓ اُسے ڈھیروں نصیحتیں اور دعائیں دے کر بھیجتی تھیں لیکِن اس دفعہ اُنہوں نے اسکی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیاتھا
وہ بجھے دل سے انہیں خدا حافظ کہتا گھر سے نکل گیا
∆∆∆∆∆∆∆
شہیر کو۔دلّی گئے دو ہفتے گزر گئے تھے اور ان دو ہفتوں سے وہ اپنی زندگی کھل کر جی رہی تھی اب نا کمرے سے باہر نہ نکلنے کی ضد تھی نا اُس کا سامنا ہونے کا خدشہ۔۔۔
وہ خوش تھی کے وہ اُس گھر سے دور ہے۔۔۔۔
لیکن وہ نا ہو کر بھی درمیان میں آجاتا تھا جب ناز اور افرا اُس کی باتیں کرتیں۔۔۔رئیسہ بیگم اور وحیدہ بیگم بات بات میں اُس کا نام لیتیں تھی۔۔۔۔۔نور کو سخت کوفت محسوس ہوتی تھی اُس کے ذکر سے۔۔۔۔ لیکِن و خاموش رہتی کے ماں بہنوں کے دل کو برا نا لگے۔۔
ورنہ تو اُس کا نام اور ذکر نور کو بے حد تکلیف دیتا تھا
جس بے دردی سے اُس نے اُس کے وجود کو ٹھکرایا تھا اُسے یاد کرکے وہ شہیر احمد خان سے نفرت محسوس کرتی۔۔۔۔
وہ بس اب یہی دعا کرتی تھی کے وہ واپس ہی نا آئے۔۔۔۔
دونوں کا کبھی سامنا ہی نہ ہو۔۔۔۔
ذلت سے اُسے تنہائی منظور تھی۔۔۔۔
حالانکہ نکاح ایسا بندھن ہے جو دو اجنبیوں کو جوڑ دیتا ہے۔۔
اُن کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے خوبصورت احساس بیدار کرتا ہے۔۔۔لیکِن وہ اُن احساسوں کو جگہ نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔
جب وہ شخص کسی اور کی چاہت کو سینے سے لگائے ہی جینا چاہتا تھا تو وہ کیوں زور زبردستی اُس سے اپنے لیے بھیک کی محبت مانگتی ۔۔۔۔۔
گھر میں سب اُسے بہُت اہمیت دیتے تھے۔۔۔۔شائد ہمدردی تھی ۔۔۔۔۔۔اُس کا اتنا خیال رکھتے تھے کے اُسے اپنی قسمت پر رشک آتا تھا۔۔۔۔اُسے کبھی کِسی چیز کی کمی نہ ہو یہ اُس گھر کے ہر فرد کی پہلی کوشش ہوتی تھی۔۔۔۔
ناز اور افرا اُس کی نند سے زیادہ سہیلیاں تھیں۔۔
اور عمیر بلکل بھائیوں جیسا۔۔
باقی سب بھی اُسے بے حد چاہتے تھے
اور وہ بھی اُن سب کی اتنی محبت کا جواب محبت سے ہی دیتی تھی۔۔۔
وقار صاحب کے ایک دوست کے بیٹے حمزہ سے ناز کے رشتے کے متعلق بات چل رہی تھی اس لیے آج حمزہ کی فیملی کو ڈنر پر مدعو کیا گیا تھا۔۔۔۔
رئیسہ بیگم اور وحیدہ بیگم کے ساتھ نور نے بھی بہُت خوشدلی سے اُن کا استقبال کیا تھا۔۔۔۔
بلکل گھر کے بڑے فرد کی طرح وہ سب کا بہُت اچھی طرح سے خیال رکھ رہی تھی۔ اور اُسے دیکھ کر رئیسہ بیگم اُس پر واری صدقے جا رہی تھیں
اُس نے پیچ کلر کا سادہ لیکِن خوبصورت سا سوٹ پہن کر سب کے اسرار کی وجہ سے ہلکا پھلکا میک اپ کیا تھا
اور اُس سادے سے روپ میں بھی وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی
کافی دیر تک باتیں چلی ادھر اُدھر کے قصے شروع ہوئے اور بہُت خوشنما ماحول میں ڈنر کیا گیا
حمزہ کے والدین بھی نور کے خوش اخلاق رویے سے متاثر ہوئے اور اُس کی تعریف کے ساتھ ہی شہیر کے مطلق بھی باتیں ہوئیں
شہیر کے ذِکر پر اُس کے روم روم میں بےچینی اترنے لگی لیکِن وہ مسکراتی رہی
مہمانوں کے جانے کے بعد سب دیر تک اُسی موضوع پر بات کرتے رہے۔۔
سب کو ہی حمزہ اور اُس کی فیمیلی پسند آئی تھی اور ناز نے بھی نور کے پوچھنے پر حامی بھرتے ہوئے سب کو خوش کر دیا تھا۔۔۔کیوں کے حمزہ ہر لحاظ سے بہتر تھا۔پڑھا لکھا اور بے حد سلجھا ہوا انسان ۔۔
کِسی کو اُس رشتے میں کوئی برائی نظر نہیں آرہی تھی اور فیصلہ ہاں میں ہی ہونا تھا
۔لیکِن یہ بات ابھی گھر کے افراد کے درمیان ہی تھی سب کو شہیر سے بات کرنے کا انتظار تھا کے وہ کیا کہتا ہے تبھی اس رشتے کی بات آگے بڑھانا تھی۔۔۔
نور بیٹا تم بھی جا کر آرام کرو ۔۔بہُت تھک گئی ہے میری بچی۔۔۔
سب اٹھ کر اپنے اپنے کمرے میں جانے لگے تو رئیسہ بیگم نے محبت سے اُس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
اُس نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا
رئیسہ بیگم اپنے کمرے میں چلی گئیں وہ بھی آگے بڑھ کر سیڑھیاں چڑھنے والی تھی کے فون کی آواز پر رک گئی
رات بارہ بجے کِس کا فون ہو سکتا ہے سوچ کر وہ فون تک آئی اور ریسیور اٹھا کر کان سے لگا یا
ہیلو۔۔۔۔۔جی کون
صوفے پر بیٹھتے ہوئے دھیرے سے پوچھا لیکِن دوسری طرف خاموشی تھی۔۔
شہیر نے اپنی مام سے بات کرنے کے لیے فون کیا تھا کیوں کہ وہ اپنے موبائل پر اُسے بلاک کر چُکیں تھیں
اجنبی آواز سن کر پہلے وہ حیران ہوا کے یہ گھر میں کون ہے جس کی آواز وہ نہیں پہچان پا رہا پھر خیال آیا کہ ہاں اُس کے گھر میں ایک ممبر کا اضافہ ہو چکا ہے
اُس کی بیوی جس کی شکل اُس نے آج تک نہیں دیکھی اور آواز پہلی دفعہ سن رہا ہے جو کافی بھلي تھی
ہیلو۔۔۔آواز نہیں آرہی ہے آپکی۔۔
وہ اُس کی خاموشی پر اونچا بولی شہیر نے لب بھینچے۔۔
کب سوچا تھا کے یوں اُس سے بات کرنے کا موقع بھی آئیگا
کچھ بولیں گے پلیز ۔۔۔
وہ جھنجھلائ۔۔شہیر نے بولنے کے لیے لب مسلے۔۔۔
فارغ ترین عوام۔۔۔۔۔۔۔
وہ بولتا اُس کے پہلے نور نے غصے سے اُسے نئے خطاب سے نوازتے ہوئے فون رکھ دیا۔
شہیر نے ابرو اچکا کر فون کو دیکھا۔۔
وہ بالوں کو جوڑے میں لپیٹتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی کے پھر فون بجا
اُس نے غصے سے دانت پیسے اور جھٹ سے فون اٹھایا تاکہ اگلے بندے کو اچھی خاصی سنا سکے لیکن۔۔۔
Shaheer ahmed khan speaking۔۔۔۔
فون میں اُس کی بھاری آواز گونجی تو اُس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔
نفرت کا دعویدار دل حلق میں دھڑکنے لگا۔۔۔
مام کو فون دیں مجھے بات کرنی ہے ۔۔۔۔
وہ اُسی خشک لہجے میں بولا نور کی ساکت آنکھوں میں جنبش ہوئی۔۔۔۔ بنا کچھ کہے فون بجلی کی تیزی سے كریدل پر پٹخ دیا۔۔
چند سیکنڈ ناگواری سے فون کو دیکھتی رہی اور پھر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔۔
∆∆∆∆∆∆∆
اگلے دن پھر اُس نے اپنی مام کے نمبر پر کال کی اور اُسے خوشگوار حیرت ہوئی جب اُنہوں نے اُس کا فون اٹھا لیا۔۔۔۔
کیوں کے وہ جب سے گیا تھا وہ اُس سے بات نہیں کر رہیں تھیں۔۔۔۔یہاں تک کہ گھر میں کسی کے بھی فون پر وہ کال کرکے بات کرنے کو کہتا وہ انکار کر دیتیں۔۔۔
حالانکہ سب ہی اُس سے روکھے برتاؤ کر رہےتھے لیکِن اُسے سب سے زیادہ اپنی مام کی ناراضگی کا ٹنشن تھا کیوں کہ وہ اُن کی ناراضگی بلکل برداشت نہیں کر سکتا تھا
مام۔۔۔۔مام پلیز بات کریں مجھ سے۔۔۔۔
وہ اُن کے فون اٹھاتے ہی بیتابی سے بولا
میں نے فون تمہیں یہ بتانے کے لیے اٹھایا ہے کے کل حمزہ کی فیمیلی آئی تھی۔۔۔۔تمہارے ڈیڈ چاہتے ہیں تم ایک بار اُن سب سے مل لو تاکہ ہم طے کریں آگے کیا کرنا ہے۔۔۔۔
رئیسہ بیگم نے خشک لہجے میں جواب دیتے ہوئے اُس کی خوش فہمی دور کردی کے اُن کی ناراضگی ختم ہوچکی ہے
یہ سب باتیں بعد میں مام پہلے آپ بتائیں آپ میرا فون کیوں نہیں اُٹھا رہیں ہے۔۔۔آپ جانتی ہے نہ میں آپ سے بات کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
وہ بےچینی سے بولا
رئیسہ بیگم خاموش رہیں۔۔۔
پلیز مام۔۔۔۔ اور کتنے دن ناراض رہیں گی آپ مجھ سے۔۔۔۔بس کر دیں اب۔۔۔۔۔۔
وہ مایوس و دکھ بھرے لہجے میں بولا
تمہیں کیا فرق پڑتا ہے میری ناراضگی سے۔۔۔۔۔۔اگر پڑتا تو اتنی بے حسی نہیں دکھاتے۔۔۔
اپنی تین دِن کی دلہن کو یوں چھوڑ کر جانے سے پہلے سوچتے کے تمہاری ماں اُسے اپنے بھروسے اور مان پر بہو بنا کر لائی تھی
اُس مان کی ساری دھجیاں بکھیر کر اُس لڑکی کی نظر میں دو کوڑی کا کر دیا ہے تم نے اپنی ماں کو شہیر
اُنہوں نے خفگی سے کہا آخر میں اُن کے لہجے میں نمی گھل گئی۔۔
مام پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔
اُن کی بھیگی آواز اور خنجر جیسے الفاظ سن کر وہ تڑپ اٹھا۔۔۔
میں نے آپکے لیے اپنے آپ سے سمجھوتہ کرلیا۔۔شادی کرلی اُس لڑکی سے۔۔ لیکن اپنے دل سے کیسے سمجھوتہ کروں جہاں کسی کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔۔۔
وہ بے بسی سے بولا اُس کے بس میں نہیں تھا کے کسی کو سمجھا سکے رئیسہ بیگم نے آنچل سے اپنی آنکھیں صاف کی
اب تو مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کے میرے بیٹے کے دل میں بسی ایک غلط لڑکی کی محبت نے اُس کے دل کو مردہ کر دیا ہے۔۔۔تبھی وہ شاید اپنی ماں کا بھی احساس نہیں کر رہا۔۔۔
اگر کرتا تو ایک کوشش کرتا اس رشتے کو نبھانے کی یوں بھاگ نہیں جاتا۔۔۔۔۔۔
اُنہوں نے تاسف زدہ لہجے نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا اور وہاں وہ ضبط سے آنکھیں بند کرکے کرسی سے ٹیک لگا گیا
گزرے چار سالوں میں اگر وہ ایک دن بھی عائزہ کو بھولا ہوتا تو شاید آج کچھ آسانی ہوتی۔۔۔
وہ تو اپنے دل کو وہیں چھوڑ آیا تھا جہاں اُس کی زندگی میں عائزہ تھی۔اب تو وہ بس شہیر تھا۔۔۔
احساس و جذبات سے خالی ایک مجسمہ جس میں بس جان تھی
∆∆∆∆∆∆∆∆
گارڈن میں لگے بڑے سے مضبوط درخت کے نیچے کھڑا وہ اُس پر چابی سے اپنا اور عائزہ کا نام کھود رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اور بارش کو دیکھتی عائزہ اُس کے ہاتھ کی گرم گرم کافی انجوئے کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
شہیر نے ایک اور جگہ کو اپنے اور اُس کی نام سے بھر کر مسکراتے ہوئے اُس کی جانب دیکھا۔۔۔۔
عائزہ کا دھیان بارش پر دیکھ اُس کی آنکھیں چمکی۔۔۔۔۔۔اُس نے دھیرے سے اُس کے ہاتھ سے کافی کا مگ لے کر ٹیبل۔۔پر رکھا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے اُسے بارش میں لے آیا۔۔۔۔وہ بری طرح ہڑبڑا گئی۔۔۔۔
کیا کر رہے ہو شہیر۔۔۔۔میرے کپڑے خراب ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے بیچ گارڈن میں لے آکر آیا تو تیز بارشنے دونوں کو پل میں بھگو دیا۔۔۔ عائزہ جھنجھلائے انداز میں بولی۔۔۔۔۔
اُس سے ہاتھ چھڑانے کی کوششں کرنے لگی لیکن وہ اُس کے چڑنے کی پرواہ کیے بنا ہنستا ہوا اُس کا ہاتھ تھامے بھاگتا بھاگتا بلکل بیچ میں آکر رکا۔۔۔۔۔
اُس کے گھورنے سے لا پرواہ اُس کے بھیگے وجود کو باہوں کے حصار میں لے کر اپنے قریب کیا۔۔۔۔
اتنے رومینٹک موسم میں اپنے شوہر کے رومینٹک موڈ کو انجوئے کرنے کی بجائے تم اپنے کپڑوں کے بارے میں سوچ رہی ہو ڈئیر بیوی۔۔۔۔
وہ اُس کی کمر کے گرد بازو باندھے اُس کے چہرے کے قریب چہرہ کرتا۔ اُسکی آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے لہجے اور چاہت بھرے انداز میں بولا تو عائزہ نے منہ بنایا۔۔۔
تمہیں پتہ ہے نا مجھے یہ بارش بلکل پسند نہیں ہے۔۔اریٹیشن ہوتی ہے مجھے۔۔۔۔
عائزہ بیزار سے انداز میں روٹھا ہوا چہرہ بنا کر بولی تو اُس نے ہنس کر اُس کی ناک کو لبوں سے چھوا۔۔۔
کیونکہ تم اسے فیل نہیں کرتی۔۔۔۔ایک بار آنکھیں بند کرکے اسے محسوس کرو تب تمہیں اندازہ ہوگا کے یہ بارش کتنی خوبصورت ہے۔۔۔۔بلکل تمہاری طرح۔۔۔۔۔
وہ چہرہ اوپر کرکے سرشاری سے بولتا پھر محبت سے اُس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔اُس کی آنکھیں ظاہر کرتی تھی کے وہ عائزہ کی چاہت میں دیوانگی کی حدوں تک پہنچ چکا تھا لیکِن جس کے لیے یہ جذبات تھے وہ اُنہیں سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔
اُسے بس یہ لگتا تھا کے یہ اُس کی خوبصورتی کا جادو ہے۔۔۔۔جو اپنا اثر دکھا رہا ہے۔۔۔۔
وہ اُس کی باتوں اور اُس کی تعریفوں کو محض فضول گوئی سمجھتی تھی۔۔۔۔۔
یہ پاگل پن کرنے کے لیے تم کافی ہو نہ۔۔۔تم اسے محسوس کرو۔۔۔اس سے باتیں کرو اس سے گپے لڑاؤ۔۔۔۔مجھے اندر جانے دو پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیزاری سے آنکھیں گھما کر بولی کسمسا کر اُس کی گرفت سے نکل کر اندر بھاگنے کو تھی کے شہیر نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔۔۔
سنو نا۔۔۔۔۔تھوڑی دیر پلیز۔۔۔۔
و اُس کا ہاتھ پکڑ کر واپس کھینچتے ہوئے بولا ۔۔۔۔عائزہ نے اُسے خفگی سے گھور کے دیکھا۔۔۔۔لیکِن اُس نے مسکرا کر اُسے اپنے قریب کیا اور اُس کے لبوں کو دھیرے سے چھوا۔۔۔
اگر میں بیمار ہوگئی تو۔۔۔۔۔۔۔
وہ اُس کے گلے میں باہیں ڈالے ابرو اٹھا کے پوچھنے لگی
تو میں تمہارا خیال رکھنے کے بہانے ہر پل تمہارے ساتھ رہوں گا۔۔۔۔
وہ مسکرا کر اُس کے گال سے چپکے بھیگے بالوں کو اُنگلی سے پیچھے کرتے ہوئے بولا
اور اگر سردی سے میرا خون جم گیا تو۔۔۔۔۔۔
عائزہ نے آنکھیں پھیلائے اپنا دوسرا ڈر بتایا
تو میں تمہیں ایسے ۔۔۔۔۔۔۔۔
شہیر نے اُس کے گرد بازؤں کا گھیرا تنگ کرکے اُس کی گردن کو لبوں سے چھوا اور۔۔۔۔۔
اپنی باہوں میں لے کر۔۔۔اپنی چاہت کی تپش سے پگھلا دوں گا۔۔۔۔
اُس کے کانوں کے قریب لب لیجاتے ہوئے دھیرے سے سرگوشی کی۔۔۔۔عائزہ کے لبوں پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔۔۔
اور میں مر گئی تو۔۔۔۔۔۔
اُس نے مسکرا کر کہا تو شہیر نے چہرہ پیچھے کرکے دانت بھینچے اُس کی آنکھوں میں غصے اور ناراضگی سے دیکھا۔۔۔۔
تو میں بھی اپنی جان دے دوں گا۔۔۔۔
وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھ کے جتاتے ہوئے انداز میں سختی سے بولا۔۔۔
سچ میں۔۔۔۔۔
عائزہ نے ہنستے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔حالانکہ یہ بات وہ اُس پر لاکھوں بار واضح کر چکا تھا۔۔۔اور اُسے یہ محض مزاق لگتا تھا۔۔۔۔
تمہارے بنا جیا تھوڑی جائیگا مجھ سے۔۔۔۔مر ہی جاؤں گا نہ
وہ اُس کی ہنسی کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے بولا اور اُس کے مسکراتے لبوں پر جھک کر اُس کی ہنسی خود میں قید کر گیا۔۔۔۔۔۔۔
عائزہ کو بھلے خبر نہیں تھی لیکن اُس کی بے وفائی کے بعد سے وہ واقعی جیتے جی مر چکا تھا۔۔۔۔
سر ہم پہنچ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرائیور نے تیسری دفعہ ذرا اونچی آواز میں لیکِن مودبانہ لہجے میں کہا تو اُس نے چونک کر پلکیں جھپکیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی سوچوں میں اس قدر مگن تھا کے اُسے گاڑی کا رکنا بھی محسوس نہیں ہوا۔۔۔۔وہ کھڑکی کے شیشے پر گرتی بارش کی بوندوں کو دیکھ کر حسین لمحوں میں کھو سا گیا تھا۔۔۔۔۔جو اب بھی بڑے انمول لگتے تھے ۔۔۔ورنہ تو اُسے زندگی بھی ایک بوجھ ہی لگنے لگی تھی جسے وہ سنبھالے جا رہا تھا۔۔۔۔
دوسری جانب کا دروازہ کھولے ڈرائیور چھتری ہاتھ میں پکڑے کب سے اُس کے باہر نکلنے کا اِنتظار کر رہا تھا لیکن اُسے ہوش ہی نہیں تھا۔۔۔
تیسری بار کے پکارنے پر اُس نے پلٹ کر دیکھا گاڑی گھر کے سامنے رکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔وہ گہری سانس خارج کرکے سر ہلا کر باہر نکلا اور ڈرائیور سے چھتری لے کر اُسے جانے کا اشارہ کیا وہ سر ہلا کر آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
وہ اپنی مام کے خیال سے وہاں آ تو گیا تھا لیکِن اب بھی اندر جانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔۔۔
کیوں کے اُسے معلوم تھا پھر اُسے اُس زبردستی کے رشتے کو نبھانے کے لیے زور دیا جائےگا جو وہ نہیں نبھانا چاہتا۔۔۔۔۔۔
وہ بیتے پانچ سالوں سے جیسے صرف یادوں اور درد کے ساتھ جی رہا تھا ساری عمر جیتے رہنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
اُسے کِسی اور کا ہونے سے کسی کو اپنا بنانے سے ۔۔کِسی اَور کے بارے میں سوچنے محسوس کرنے چھونے کا سوچ کر بھی کوفت محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔
وہ چھتری ایک سائیڈ میں رکھ کر بارش میں بھیگتا ہوا آگے بڑھا ۔۔۔وہاں اُس درخت کی جانب جس پر جگہ جگہ ۔۔۔۔کہیں دونوں کا نام تو کہیں نام کے پہلے الفاظ دل بنا کر لکھے گئے تھے۔۔۔۔
اب دونوں نام بس اُس درخت پر ہی باقی بچے تھے ۔۔۔۔ورنہ ہر جگہ سے مٹ چکے تھے۔۔۔۔۔۔
اُس نے جیکٹ اُتار کر درخت کی نچلی شاخ پر ڈالتے ہوئے آنکھیں بند کرکے چہرہ اوپر کیا۔۔۔اور بارش کی بوندوں کو محسوس کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
بارش آج بھی اُسے اتنی ہی اپنی لگتی تھی۔۔۔کیوں کے وہ اُس کے آنسو خود میں چھپا لیتی تھی۔۔۔۔اُس کے دل کی باتیں سن لیتی تھی۔۔۔۔۔اُس کے جلتے وجود کو ٹھنڈک دیتی تھی۔۔۔کچھ دیر کے لیے ہی صحیح۔۔۔۔



بجلی کی آواز سے گھبرا کر وہ نیند سے جاگ گئی۔۔۔۔اُسے اکیلے سونے کی عادت نہیں تھی حالانکہ پچھلے کچھ دنوں سے وہ عادی ہو چکی تھی۔۔۔۔لیکن اب بجلی کا خوف اُسے پریشان کر رہا تھا۔۔۔۔۔بارش کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی تھی اور سردی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔۔۔۔
گارڈن والی۔کھڑکی ہوا سے کھل گئی تو کمرہ اور ٹھنڈا ہونے لگا۔۔۔۔
وہ بیڈ سے اُتر کر کھڑکی بند کرنے کو آگے بڑھی۔۔۔۔۔
کھڑکی بند کرنے کو تھی جب اُسے گارڈن میں کِسی کی موجودگی کا گمان ہوا۔۔۔۔
آنکھوں پر زور دے کے بارشِ سے دھندھلائے منظر میں اُس موجودگی کا یقین کرنا چاہا تو چند لمحوں کی محنت کے بعد اُسے سمجھ آیا کے گارڈن میں کوئی تھا۔۔۔۔
تیز بارش سے بے نیاز گھاس پر بے سود چت پڑا ہوا۔۔۔۔ذہن پر زور دینے کے بعد اُسے چند سیکنڈ اور لگے اُس شخص کی پہچان کرنے میں اور جب سمجھ آیا کے وہ کون ہے اور کیوں کر اس قدر بے حس پڑا ہے
اُس کے دل کی دھڑکنیں مدھم ہوئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے کبھی نور کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ اُسے تصویروں میں کئیں بار دیکھ چکی تھی۔۔اُس کی باتیں دِن رات سنتی رہتی تھی۔۔۔
اور آج اپنے سامنے پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی وہ بھی اس طرح
پتہ نہیں کونسا احساس تھا جو پریشان کرنے لگا اُس شخص کے لیے جس سے کبھی سامنا تک نہیں ہوا تھا۔۔۔جو اُس کی شکل سے بھی نہ واقف تھا۔۔۔
جو اُسے بیوی کا ٹیگ دینے کے بعد اپنے کمرے میں سجا کر بھول چکا تھا۔۔۔۔
جس سے وہ نفرت کرنا چاہتی تھی اس لمحے اُس کی فکر ہونے لگی کے کہیں بارش اُسے بیمار نا کر دے۔۔
اُس نے اپنی سوچوں کو جھٹک کر کھڑکی بند کی اور وہاں سے ہٹ گئی۔۔۔لیکن اب دل بے چین سا تھا۔۔۔۔۔پریشان ہو رہا تھا۔۔۔۔
اُس نے سمجھانا چاہا کے جس نے اُسے دھتکارا ہے اُس کے بارے میں کچھ نہ سوچے لیکن تب بھی دل نہیں مانا۔۔۔ تو مجبوراً وہ چھاتا لے کر روم سے باہر نکل آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی اور بڑھتے ہوئے ہر قدم بھاری تھا ۔۔۔ہر دھڑکن تیز تھی۔۔۔بس ایک ہی خیال تھا کے کیا ہو اگر وہ ذرا بھی بے رخی دکھا دے۔۔۔۔تھوڑا اور دل دکھا دے۔۔۔۔کیا ہو اگر پھر کچھ کہہ کر چوٹ پہنچا دے۔۔۔۔
کیا اُس گھر اور کمرے میں رہنے کی ہمت بھی باقی رہ پائے گی۔۔۔۔
اُس کے نزدیک پہنچی تب بھی وہ بے خبر سا پڑا تھا جیسے کوئی ہوش ہی نہ ہو۔۔۔۔
بارش کی بوندوں کی چبھن پر ذرا سا تاثر تک نہیں اُبھرتا تھا
دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے ہوئے تھے۔۔۔
موبائل الگ ایک طرف پڑا بھیگ رہا تھا۔۔۔۔
وہ رک کے غور سے اُسے دیکھنے لگی۔۔۔جہاں بھیگے چہرے پر سکون تھا لیکن اُس سکون کے پیچھے کتنا درد چھپا تھا کِسی کے لیے بھی سمجھنا مشکل نہیں تھا۔۔۔۔
آنکھیں بند تھی۔۔۔خاموش تھی لیکن اُن کی خاموشی میں بھی کتنا شور تھا سب واقف تھے۔۔۔
نور کو ایک لمحے کے لیے اپنا ہر دکھ اُس کی تکلیف اور غم کے آگے چھوٹا بہُت چھوٹا لگا۔۔۔۔
اُس کا دل کمزور ہونے لگا۔۔۔
نفرت پھیکی پڑنے لگی۔۔۔۔
دل اُس کی بے بسی کا احساس کرکے اُس کے لیے نرم گوشہء بننے لگا۔۔۔۔حالانکہ ٹھکرائے جانے کا دکھ اپنی جگہ تھا
سنیے۔۔۔۔۔
اُس نے دل پر پتھر رکھ کر بڑی ہمت سے اُسے پکارا۔۔۔۔
لیکن اُس کے ساکت وجود میں نہ کوئی حرکت ہوئی نا بند آنکھوں میں ذرا بھی جنبش۔۔۔۔
شاید بارش کے شور میں اُس نے سنا نہیں اور سنا تو دھوکا سمجھ کر فراموش کردیا۔۔۔۔۔۔
نور کو اُلجھن سی ہونے لگی کے ایک تو کبھی اُس سے سامنا نہ ہوا اور اب ایکدم آدھی رات کو اُسے ایسے پکارنے کی نوبت آگئی تھی۔۔۔کِسی کو جگانا بھی ممکن نہیں تھا۔۔۔۔۔
سس۔۔۔سنئیے۔۔۔۔۔۔
اُس نے جھجھک کر پھر اُسے پکارا
لیکن پھر اُس کی آواز بے اثر لوٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے آگے قدم بڑھائے۔۔۔اُس کے نزدیک ہوئی اور چھتری کا سایہ اُس تک لائی تاکے بارش سے بھی بچا سکے اور نزدیک سے بھی پکار لے لیکن پھر پکارنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔۔۔
جیسے ہی چہرے پر بارش کی بوندیں گرنا بند ہوئی اُس کی صبیح پیشانی پر لکیر اُبھری۔۔
لب آپس میں سخت ہوئے اور آنکھیں کھلیں۔۔۔۔
نور کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا کے جانے اُس سے سامنا ہونے پر وہ کیسا ری ایکٹ کرےگا۔۔۔۔۔
اُس کی حیثیت وہ پہلے ہی واضح کر چکا تھا۔۔۔اب پتہ نہیں کیسا سلوک کرےگا۔۔۔۔
شہیر پہلے چھاتے کو اور پھر حیرت سے اُسے دیکھتا اٹھ بیٹھا۔۔۔۔
اٹھ کر اندر آجائیے۔۔۔۔۔۔۔آپکو ۔۔۔س۔سردی لگ جائے گی۔۔۔
نور نے اُس کی نظروں سے نروس ہو کر جھجھکتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں
آپ کون ہے اور گھر کے اندر کیسے آئیں۔۔۔۔
اُس کے ٹہرے لہجے میں سنجیدگی سے کیا گیا سوال نور کو تیر کی تیزی سے چبھا ۔۔۔۔۔۔وہ کس قدر بےنیاز تھا اُس کے وجود سے جیسے وہ کوئی فضول شے ہو
میں جو بھی ہوں۔۔۔ آپکی بیوی کی حیثیت سے اس گھر کے اندر آئی ہوں۔۔۔۔
اُس نے بھی چبھتے لہجے میں جواب دے کر حساب برابر کیا ۔۔۔اپنی بھڑاس نکالی
شہیر کے اعصاب سست ہوئے۔۔۔
اُسے نور کی نظروں میں اپنے لیے ناگواری نظر آئی۔۔۔اور وہ اُس کی وجہ سے بھی واقف تھا
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
چھاتے کا سایہ اُس سے ہٹ گیا اور وہ پھر بارش میں بھیگنے لگا۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔آپ اندر جا سکتیں ہے۔۔۔۔
اُس نے بھیگے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سنجیدگی لیکن نرمی سے جواب دیا۔۔۔بنا اُس کی جانب دیکھے۔۔۔
آپ کو بھی یہ خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں ہے کے میں آپکے لیے پریشان ہوں۔۔۔۔۔۔۔اتفاق سے یہاں آئی تو انسانیت کے طور پر کہہ دیا۔۔۔باقی اگر آپکو بارشِ میں بھیگ کر بیمار ہونے کا شوق ہے تو جیسی آپ کی مرضی۔۔۔۔۔۔۔
نور نے روکھے بیزار کن انداز میں کہا اور واپس اندر جانے لگی وہ اُسے دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔کہ کیسے بنا بات بنا وجہ وہ اُسے سخت سنا کر چلی گئی تھی۔۔۔۔
حالانکہ اُسے احساس تھا کہ وہ بے قصور پس رہی ہے اسلئے اُس کا غصّہ اُس کی بے رخی سب جائز ہے لیکن وہ کیسے اپنی بے بسی بیان کرتا۔۔۔۔
چند لمحے اُس کے مطلق افسوس کرکے وہ پھر اُسے دماغ سے جھٹک کر اپنا جیکٹ اٹھاے اندر کی اور بڑھ گیا۔۔۔۔۔




وہ کمرے میں آکر بیڈ پر گری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔پتہ نہیں کس بات کا افسوس كس بات کا دکھ کھائے جا رہا تھا۔۔۔۔
حالانکہ سب اُس کا اتنا خیال رکھتے تھے اُس سے اتنی محبت کرتے تھے لیکن تب بھی اُسے اُس ایک شخص کی بے اعتنائی مار رہی تھی ۔۔۔۔
شاید اس لیے کے سب رشتے اُس سے منسلک ہونے کے نتیجے تھے اور وہ ہی اجنبی تھا۔۔۔۔۔
۔شاید اُس نے اپنی اگلي زندگی کے لیے بہُت سنہرے خواب بن لیے تھے اور اب اُن کا پورا ہونا ناممکن نظر آرہا تھا۔۔۔۔۔۔
شاید اُس کی پریم کہانی کا ہیرو کسی اور کا ہو کر رہ گیا تھا اور وہ تنہا رہ گئی تھی اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کا ننھا سا دل محبت کی آس میں تھا اور اُمید اپنا پن ملنے کی بھی نہیں رہی تھی اس لیے۔۔۔۔۔۔
یہ سوچ کے اُس کی زندگی کیسے گزرنے والی ہے اُس کا دل اور دکھا رہی تھی۔۔۔۔درد اور بڑھا رہی تھی۔۔۔۔۔
اسٹڈی روم کی دو حفتے بعد روشن ہوئی لائٹ دیکھ کر اُس کے آنسوؤں میں تیزی آتی گئی ۔۔۔