محرم میرے

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 7

اور پھر سے وہیں نظام عمل۔۔
وہیں کنارہ کشی ۔۔۔۔۔
ایک دوسرے کو نظر انداز کرنا ۔۔۔۔۔
بس اب زیادہ جدوجھد نہیں کرنی پڑتی تھی
گھر میں ویسے ہی شادی کا ماحول تھا اسلئے خوب شور و گل بھی تھا اور مصروفیت بھی۔۔۔۔
دھیان بھی بٹا ہوا تھا اور وقت بھی۔۔۔
پہلے جیسی بیگانگی نہ سہی مگر بے رخی اب بھی درمیان حائل تھی۔۔۔۔
وقار صاحب پوری طرح شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے اسلئے یہاں آکر بھی شہیر کو ہی آفس کا کام سنبھالنا پڑ رہا تھا۔۔۔۔شادی یا شادی کے فنکشن میں اُس کی موجودگی برائے نام ہی تھی۔۔۔۔۔لیکن کام مجبوری تھی يا بہانہ سمجھنا مشکل نہیں تھا۔۔۔۔
شادی میں تین دن باقی تھے چاروں طرف ہلدی کے فنکشن کے لحاظ سے یلو اور گرین ڈیکوریشن کیا جا رہا تھا۔۔۔۔۔
سب ڈرائنگ روم میں موجود تھے۔۔۔۔ وہ تیار ہو کر اپنی دھن میں کسی سے بات کرتا سب کو نظر انداز کیے آفس کے لیے نکل رہا تھا جب رئیسہ بیگم نے اسے روکا۔۔۔
“شہیر تم نے اگر یہاں آکر بھی اپنے کام ہی کرنا ہے تو بہتر تھا وہیں رہتے۔۔۔۔”
وہ اٹھ کر اُس کے پاس آئیں اور ناراضگی سے کہا اُس نے ہمیشہ کی طرح خاموشی میں جواب دیا۔۔۔اور ایک نظر اُس جانب دیکھا جہاں نور سمیت سب ساتھ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔۔
“میں چاہتی ہوں آج تم نور کو شاپنگ پر لے کر جاؤ۔۔۔۔گھر میں شادی ہے اور میرے اتنے سمجھانے کے بعد بھی اس لڑکی نے شاپنگ تک نہیں کی۔۔۔۔۔کچھ تو خیال کرو بیوی ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے ایک نظر اُس کی نظروں کا رخ جانچا اور پھر بہانہ بنایا حالانکہ انہوں نے پہلے ہی نور کے لاکھ منع کرنے کے بعد شادی کے ہر فنکشن کے لیے الگ الگ کپڑے اور زیور کی شاپنگ کروائی تھی ۔۔۔مگر فلحال اُن کا مقصد دونوں کو ساتھ بھیجنا تھا۔۔۔کیوں کے دونوں کی سرد مہری کو مہمان بھی محسوس کرکے شک شبے کر رہے تھے۔۔۔۔
” ویٹ کر رہا ہوں بھیج دیں ۔۔۔۔۔”
اُس نے اگلے ہی پل حامی بھر کر انہیں حیران کرتے ہوئے قدم باہر کی جانب بڑھائے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور شاید وہ کوئی بہانہ یا جواز دے کر انکار کر بھی دیتا مگر جانے ان دنوں دماغ پر کسی ضد سوار تھی کہ ہر چیز سے زیادہ ضروری ہو گیا تھا نور کو اپنے کزنز کی نظروں سے دور کرنے کی کوشش کرنا۔۔۔۔۔۔اور اس وقت بھی وجہ وہی تھی کہ وہ اُسکے کسی کزن کی باتوں کو بہت دھیان لگا کر سن رہی تھی ۔۔۔۔اور شہیر کو اُس کا مسلسل کسی کی جانب دیکھنا برا لگ رہا تھا ۔۔۔
وہ گاڑی کے باہر ہی کھڑا تھا نظریں پھر اسی درخت کی جانب تھیں جب نور باہر آئی۔۔۔۔
“وہ مام نے آپ سے یونہی کہہ دیا۔۔۔۔۔میں نے تو شاپنگ کرلی ہے شادی کے لیے۔۔۔۔۔۔۔”
اُس کی آواز نے شہیر کو اپنی طرح متوجہ کیا جس میں بے بسی بھی تھی اور اضطراب بھی۔۔۔اُس نے لاکھ منع کیا مگر رئیسہ بیگم نے اسے زبردستی باہر بھیجا تھا۔۔۔
شہیر نے بنا اُس کی جانب دیکھے اُس کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔۔۔وہ تذبذب میں گھری یونہی کھڑی رہی تو شہیر نے اُس کی جانب دیکھ کر سر کے اشارے سے اندر بیٹھنے کا آرڈر دیا۔۔۔وہ کیا کرتی سوائے عمل کرنے کے سو وہی کیا ۔۔۔۔
اُس کے بیٹھتے ہی دروازہ بند کرکے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور گاڑی سٹارٹ کرلی مگر آگے نہیں بڑھائی ۔۔۔۔۔نور نے سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تو اُس نے سیٹ بیلٹ لگانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔نور نے فوراً اُس کے اشارے پر عمل کیا ۔۔اور اس کے بیلٹ لگاتے ہی گاڑی آگے بڑھی۔۔۔۔۔۔
نور نے سامنے لگے چھوٹے سے آئینے میں نظر آتے اُس کے ادھورے عکس کو ضبط سے گھورا کہ ایک تو وہ اس کی بات نہیں سن رہا تھا اوپر سے خود کو منہ سے کچھ بولتے ہوئے بھی زحمت ہو رہی تھی کہ بس اسے اپنے اشاروں پر نچا رہا تھا۔۔۔۔
اُس نے ایک مشہور و معروف بوٹک کے پاس آکر گاڑی روکی اور خود باہر نکلا تو نور کو بھی باہر آنا پڑا ۔۔۔۔۔ وہ انکار کرنا چاہتی تھی لیکن منہ تک آئے لفظوں کو باہر آنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔۔۔۔۔سامنے والے کے پتھر جیسے تاثرات کی بدولت۔۔۔۔۔
“جو چاہیے لے لو۔۔۔۔۔۔”
اندر آتے ہی اُس نے وہیں ازلی لاپرواہ بیزار لہجے میں کہتے ہوئے سگریٹ نکال کر لبوں میں دبائی۔۔۔۔۔نور نے من ہے من اسے گھورا کہ اس قدر بے مروتی ۔۔۔۔اسے آرڈر دے کر وہ ٹائم پاس کرنے کے لیے سگریٹ بھی سلگا چکا تھا۔۔۔۔
“مگر مجھے کچھ بھی نہیں لینا ہے۔۔۔۔۔آپ۔۔۔”
“کیوں کے میں گھر جا کر اپنی مام سے لیکچر نہیں سننا چاہتا ۔۔۔so do as I say”
وہ جھنجھلا کر بولنے لگی تو وہ اُس کی بات کاٹ کر سختی سے بولا اور وہ جہاں کی تہاں رک گئی۔۔۔۔۔
“میم پلیز کم۔۔۔۔۔”
لیڈی مینیجر نے اسے مودبانا لہجے میں مخاطب کیا تو وہ ایک نظر اُس کی جانب دیکھ کر اُس کے ساتھ اندر چلی گئی۔۔۔۔۔
بے دلی سے اُس نے کپڑے دیکھے ۔۔۔۔۔اور جس کے لیے مینیجر نے زور دیا وہ تھام کر ٹرائل روم میں جا کر چینج کیا اُس کے بعد جس نے یہ شاپنگ کروانے کا احسان کیا تھا اُس سے پوچھنے کی غرض سے باہر آئی۔۔۔۔
وہ باہر کی جانب رخ کیے اپنا مشغلہ پورا کرنے میں مصروف تھا۔۔۔۔۔اور اب نور کے لیے اسے اپنی جانب متوجہ کرنا بھی ایک مسلہ تھا ۔۔۔۔۔۔اُس نے اُس کا نام پکارنے کے لیے لب کھولے مگر جھجھک کر رک گئی ۔۔۔
۔۔۔۔بلآخر مصنوعی کھانس کر دھیان کھینچنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوئی ۔۔۔۔شہیر نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔
وہ سرخ شرارے اور اسکن لانگ شرٹ میں دوپٹہ ایک شولڈر پر پھیلائے اُس کے اپروول کی منتظر کھڑی تھی اور شہیر کو اس چیز میں بھی ذرہ برابر دلچسپی نہیں تھی مگر ۔۔۔۔۔۔۔
سرسری نگاہ سے اُس ڈریس کا جائزہ لیتے ہوئے ۔۔۔۔اُس کی نظر جب گہرے گلے سے نظر آتے ۔نیک بون سے چند انچ نیچے موجود تل پر پڑی تو وہ جیسے ایکدم سے بیدار ہوا۔۔۔۔۔
فوراً اُس سے نظریں ہٹا کر دوسری جانب دیکھا اور سر دھیرے سے نفی میں ہلا کر انکار کیا۔۔۔۔۔
نور نے حیرت سے اسے دیکھا کیوں کہ یہ بات تھی ہی حیران کن۔۔۔۔۔۔۔۔پھر سر سے پیر تک خود کو دیکھ کر اُس ڈریس میں کمی تلاشنے کی کوشش کی جو اسے محسوس نہیں ہوئی۔۔۔۔مگر سامنے سے ریجیکٹ ہو چکا تھا تو بات ختم ہو گئی تھی۔۔۔۔۔
اُس نے واپس جا کر بیزاری سے دوسرا ڈریس ٹرائے کیا جو لیمن گرین کلر كا قیمتی اور خوبصورت لہنگا تھا۔۔۔
اور ریجیکٹ کرنے لائق ہرگز نہیں تھا ۔۔۔
اس دفعہ شہیر نے شروع سے ہی بہت غور سے اُس ڈریس کا جائزہ لیا۔۔۔جب کہ اپنے کپڑوں کو لےکر اُسے اتنا سنجیدہ دیکھ نور تو حیرت سے سن تھی۔۔۔۔۔اُس کی جانچتی نظروں سے پریشان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نظریں جھکائے کھڑی تھی۔۔۔۔
اُسے گلے کی جانب سے تو کچھ تسلی ہوئی لیکن ٹاپ کافی شارٹ تھا نور نے کھلے پیٹ کو دوپٹے سے کور کرکے اُس پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اس لیے نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔
شہیر نے ذرا توقف سے اُس کے پیچھے۔۔۔۔دیوار نسب قدآور آئینے میں اُس کے عکس کو دیکھا جس میں لہنگے اور ٹاپ کے درمیان چار انچ کی دوری واضح نظر آرہی تھی اور کسی کا بھی دھیان اپنی طرف کھینچ سکتی تھی بلکہ بگاڑ سکتی تھی۔۔۔۔
اُوںہوں ۔۔۔۔۔۔
نور کی نظریں نیچے تھی اُس لیے بجائے اشارے کے آواز سے کام لیا اور نور نے سر اٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تو وہ اُس ڈریس کو بھی نہ منظوری دے کر نظروں کا رخ دوسری جانب موڑ کر لاتعلق ہو چکا تھا۔۔۔۔۔نور کو اُس پر بے حد غصہ آیا اور وہ غصّہ واپس پلٹتے ہوئے اُس کی چال میں بھی واضح تھا۔۔۔۔اُسے سمجھ آرہا تھا کہ شہیر کپڑوں کے لیے کس چیز پر توجہ دے رہا ہے۔۔۔۔۔مگر اتنی باریکی سے کیوں دے رہا ہے وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔۔
تیسرا ڈریس چینج کرتے ہوئے یہ طے کرکے آئی تھی کہ اب اگر یہ بھی ریجیکٹ ہوا تو وہ کچھ بھی ٹرائے نہیں کریگی۔۔۔۔۔۔۔مگر شہیر نے ایک نظر جانچ کر ہی اُسے اوکے کر دیا جو کہ آف وہائٹ کلر کی خوبصورت پیروں کو چھوتی گاؤن تھی ۔۔۔۔۔جس کا گلا نیک بون تک بند تھا اور خوبصورت ورک کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔آستین کلائی تک ڈھکے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔یعنی شہیر کو ایسی کوئی خامی نظر نہیں آئی جو کسی کا دھیان نور کی خوبصورتی کی جانب بھٹکا سکے ۔۔۔۔۔
نور کو تسلی ہوئی اور اُس نے سکون کا سانس لیا لیکن۔۔۔۔
“آپ کے ہسبنڈ آپ کے لیے بہت پوزیسیو ہے ۔۔۔۔لگتا ہے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں آپ سے۔۔۔۔۔۔”
مینیجر نے اُس کے ہاتھ میں بیگ تھماتے ہوئے مسکرا کر کہا تو اسکے دل میں وہ لفظ تیر کی تیزی سے چبھے۔۔۔۔۔۔چند لمحے تو و ساکت رہ گئی۔۔۔۔۔
پیار ۔۔۔یہ لفظ تو دور دور تک اُن کے رشتے کی حد میں نہیں آتا تھا۔۔۔۔پھر وہ کیوں اُس کے لیے پوزيسیو ہو سکتا تھا اور اُسے خود پر بھی غصّہ آیا کے وہ کیوں کے اس کی مرضی اور رضا کو اتنی فوقیت دے رہی تھی۔۔۔۔۔وہ تو اُسے سے بات کرنے تک کی زحمت نہیں کرتا تھا۔۔۔۔
۔شہیر نے گاڑی کا ہارن پریس کیا تو وہ ضبط سے لب کاٹ کر گاڑی کی طرف بڑھی بیگ پچھلی سیٹ پر تقریباً پھینکا اور اندر بیٹھ کر دروازہ کافی زور سے بند کیا۔ ۔۔۔کہ شہیر کو بھی محسوس ہوا ۔۔
وہ گاڑی اسٹارٹ کرکے پھر سے اُس کے سیٹ بیلٹ لگانے کے انتظار میں رکا ہوا تھا۔۔۔۔۔مخاطب کرنے کی تکلیف اب تک نہیں کی تھی اور نور جان کر بھی انجان بنی بیٹھی تھی۔۔۔۔
ضبط سے تاثرات سخت تھے آنکھوں میں سرخی جمع ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اور غصے کا غبار بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔
سیٹ بیلٹ لگاؤ۔۔۔۔۔۔۔
آخر اس کی غائب دماغی دیکھ شہیر کو خود کہنا پڑا اور وہ سن کر بھی انسنی کر گئی۔۔۔جوں کی توں بیٹھی رہی ۔۔۔۔۔شہیر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔صاف نظر آرہا تھا کہ اُس کی بات نہ ماننے کی ضد سوار ہے۔۔۔۔اور کچھ تو ہے جس کا غصّہ بھرا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔
وجہ سمجھنے سے وہ قاصر تھا مگر بے مقصد اور اچانک یہ برتاؤ اُسے سخت برا لگا اور پھر اُس نے دوبارہ کہا نہیں بلکہ خود آگے بڑھ کر سیٹ بیلٹ پکڑ کر کھینچی ۔۔۔۔۔
نور کو اُس کے ایکدم قریب آنے سے مانو زور کا جھٹکا لگا وہ گڑبڑا کر سانس اندر کھینچتی سیدھی ہوئی۔۔۔۔۔صدمے سے اُسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔
شہیر نے سیٹ بیلٹ لگا کر اُس کی جانب سرد سنجیدہ نظروں سے دیکھا اور پیچھے ہو کر گاڑی آگے بڑھائی۔۔۔۔
نور نے سانس بحال کی مگر دھڑکنیں کچھ دیر اور بے ترتیب رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پل کو سوچا کہ سیٹ بیلٹ کو لےکر اتنا کنسرن کیوں ہو سکتا ہے تو یاد آیا کے وہ پچھلی بار کار سے کودنےکی کوشش میں ایک مصیبت کھڑی کر چکی تھی ۔۔۔۔۔
۔اور شاید وہ سوچ رہا تھا کہ دوبارہ بھی ایسا کچھ کر سکتی ہے اس لیئے احتیاط کر رہا ہے اور یہی سب سوچتے سوچتے غصّہ پھر عود آیا ۔۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial